میں وہی بکی ہوئی لٹی ہوئی سندھی بیگم ہوں


اپسالا میں میرا قیام تقریباً بارہ ماہ سے زیادہ رہا، سولہ سترہ سو سال اس پرانے شہر کو میں نے اچھے طریقے سے محسوس کیا۔ سردی، خزاں اور بہار پہلی دفعہ میرے سامنے سے گزرگئے۔ پھول کھلتے ہوئے دیکھے، پتے جھڑتے ہوئے دیکھے، برف گرتی ہوئی دیکھی برف پگھلتی ہوئی دیکھی برستی ہوئی بارش میں بھیگتے ہوئے موسم کو نکھرتا ہوا دیکھا اور شہر کے بیچ چھوٹے سے دریا فائرس میں موجوں کو اُبلتے ہوئے دیکھا۔ کراچی میں تو پتہ بھی نہیں لگتا ہے کہ موسم بدلتے بھی ہیں، کبھی خزاں آتی ہے، بہار آتی ہے، ساون کے مہینے ہوتے ہیں، گرمی سردی بارش کی کوئی ترتیب ہوتی ہے، یہاں تو دھواں ہوتا ہے اور شہر میں ابلے ہوئے گٹر کے پانی کا ساون بہتا ہے۔

میں سویڈن، سوویت یونین کے اسلامی ریاستوں میں مسلمانوں کے روایات اور اقدارپر تحقیق کرنے آئی تھی۔ مجھے پہلے دن سے ہی ایسا لگا جیسے پورا شعبہ، لائبریری اور یہاں تک یونیورسٹی میں کام کرنے والے چپراسی اورکلرک ہر کوئی میری اس تحقیق میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کی دلچسپی دیکھ کر مجھے شرم آتی کہ میں ان کے معیار کے مطابق صحیح معنوں میں تیاری بھی کرکے نہیں آئی تھی۔ لیکن میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ اپنے وظیفہ کا ایک ایک لمحہ تحقیق میں گزاروں گی اور سچ تو یہ ہے کہ اس تحقیقی کام کامجھے جو فائدہ ہوا ہے اس کا صرف میں ہی اندازہ لگاسکتی ہوں۔

اس تحقیقی کام کے ہی سلسلے میں مجھے یونیورسٹی کی طرف سے روس، انگلینڈ، فرانس، جرمنی اورپولینڈ بھیجا گیا، ان تمام ملکوں میں لائبریری اور تحقیق و علم کی جستجو نے مجھے شدید احساس دلایا کہ میں جس ملک سے آئی ہوں وہاں بڑے بڑے نام کے پروفیسر تو ہیں جنہیں نہ جانے کتنے تمغے مل چکے ہیں اور ان بڑے نام کے پروفیسروں کے عالیشان دفاتر عالیشان عمارتوں میں تو ہیں لیکن یہ اندر سے کتنے کھوکھلے ہیں اس کا اندازہ میں نہیں کرسکتی تھی۔ اس کا اندازہ تومجھے اپسالا آکر ہی ہوا کہ یہ لوگ ٹھن ٹھن کرتے ہوئے برتنوں کی طرح ہیں جن سے شور تو مچ سکتا ہے۔ آواز تو آسکتی ہے مگر خالی برتن خالی ہی ہوتا ہے۔

اپسالا میں میں اور بھی دوسرے لوگوں سے ملی۔ ایران کے بھاگے ہوئے کمیونسٹ جن کے خاندانوں کو پہلے تو شاہ رضا شاہ پہلوی نے تاراج کیا، پھر خمینی انقلاب کے خمینی ججوں نے راتوں رات پھانسیوں پر لٹکادیا، ایران سے ہی بھاگے ہوئے ان بہائیوں سے ملاقات ہوئی جن کے مذہب پر وہاں پابندی لگادی گئی تھی۔ عراق سے نکالی ہوئی عورتوں سے ملاقات ہوئی جن کے گاؤں دیہات، شہر کو عراق کے صدام حسین نے تباہ و برباد کردیا تھا۔ سری لنکا کے تامل باغی بھی مجھے ملے اور فلسطینیوں کے سماجی مرکز میں ان کی میٹنگ میں بھی شامل ہوئی اور پاکستان سے نکالے گئے احمدیوں سے بھی ملاقات ہوئی جو وہاں سیاسی پناہ گزین تھے۔

میرے آنے سے چند دن قبل اپسالا میں سالوں کے بعد قتل کی ایک واردات بھی ہوئی تھی جس نے پورے شہر کو سراسیمہ کردیا۔ سویڈن میں قتل و غارت گری برائے نام ہوتی ہے اور سویڈن میں پھانسی کی سزا ختم ہوئے سو سال سے زائد ہوچکے ہیں۔ اپسالا میں یہ قتل بھی ایک کُرد مہاجر نے اپنی بیٹی کا کیا تھا۔ غیرت کا قتل، اس کُرد لڑکی نے اپنے خاندان، ماں باپ کی مرضی کے خلاف ایک سویڈن کے باشندے سے شادی کا ارادہ کیا تھا۔ کُرد لڑکی کا یہ فیصلہ ماں باپ کو قبول نہیں تھا انہوں نے اپنے خاندان کی عزت بچانے کے لئے اپنی ہی بیٹی کو قتل کردیا، جہالت میں صرف ہمارا ہی نام نہیں ہے اوربھی ملکوں میں جہالت کی پاسداری ہے۔ کاش ہم لوگ کردستان سے مختلف ہوتے یہ ایک اور کاش میری زندگی میں در آنی تھی۔

اپسالا میں ہی میری ملاقات بوسنیا کے مسلمانوں سے ہوئی اور ان کے گھروں میں میرا آنا جانا ہوگیا، بڑے زندہ دل خوددار سیدھے سادھے مذہبی لوگ تھے وہ۔ سچ بولتے اور اپنے مذہب و طن سے محبت کرتے۔ نہ ان میں کوئی بریلوی تھا نہ دیوبندی، نہ کوئی شیعہ تھا اور نہ کوئی سنّی۔

اپسالا کے قیام کے دوران ہی مجھے پتہ لگا کہ ساری دنیا سے سیاسی قیدی، ضمیر کے قیدی، ملکوں سے بھاگے ہوئے ایسے لوگ جن کے قتل ہوجانے کا خدشہ ہو وہ سب کے سب سویڈن آجاتے ہیں۔ سویڈش حکومت نہ صرف یہ کہ ان کی حفاظت کرتی بلکہ انہیں اس قابل بھی بناتی ہے کہ وہ سماج میں مثبت کردار ادا کریں۔ دوسری جنگ عظیم میں بے شمار نازی دشمن جرمن اور یہودیوں نے سویڈن میں پناہ لی تھی۔ خود سویڈن کوآخری جنگ لڑے ہوئے دو سو سال سے زائد ہوچکے ہیں۔

ماضی میں سویڈن نے بے شمار جنگیں لڑی ہیں اور یورپ میں قتل غارت گری، لوٹ مار، اغوا دشمن قوم کی عورتوں کی آبروریزی۔ وہ سب کچھ کیا ہے جو جنگجو قومیں کرتی ہیں مگر اب دو سو سالوں سے یہ قوم امن پسند ہوگئی ہے اور ہمارے ملک میں تو شاید یہ لوگ بے غیرت کہلائیں۔ نہ جنگ لڑتے ہیں نہ لڑکیوں کو قتل کرتے ہیں۔ بزدل ایسے کہ پھانسی بھی نہیں دے سکتے۔ بالکل بے غیرت۔

میرے واپس آنے میں صرف دو ماہ باقی تھے کہ میری ملاقات اس سے ہوئی۔ وہ بوب اسٹارم کافی ہاؤس میں کافی پی رہی تھی۔ ریسٹورانٹ میں کوئی سیٹ خالی نہ تھی۔ میں اس سے اجازت لے کر اس کی میز پر بیٹھ گئی۔

اس نے یورپین طرز کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، سرخ و سفید رنگت میں وہ مجھے ایرانی لگی تھی۔ مجھے دیکھ کر مسکرائی اور اُردو میں پوچھا کہ ”کیا تم پاکستان سے آئی ہو؟“

مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور مجھے پہچاننا اتنا مشکل نہیں تھا مگر مجھے تھوڑی سی حیرت ضرور ہوئی کیونکہ عام طور پر لوگ مجھے ہندوستانی سمجھتے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments