فیضو لالا، قدوس بزنجو اور ایک چائنک چائے


بلوچستان میں سیاست، یہاں کے اقدار اور روایات دم توڑ رہی ہیں اور سیاست نظریات اور خدمت کے بجائے کاروبار بنتی جا رہی ہے۔ نوجوانوں نسل ماضی کی بلوچستان اسمبلی اور یہاں کی روایات سے بے خبر ہوگئے ہیں۔ ملکی سطح پر پورے صوبے کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ فیضو لالا کوئٹہ کی ماضی کی سیاست کا ایک متحرک کردار جو ایم اے جناح روڈ پر بیٹھ کر رفتگان کو یاد کرتا ہے۔ ان سے چلتے چلتے سر راہ ملاقات ہوگئی۔ ایک چینک چائے منگوائی اور تھڑے پر بیٹھ گئے۔ فیضو لالا اس دوران کتاب ماضی کے کچھ اوراق یوں کھنگالنے لگے۔ اپنی عادت سے مجبور صبح سویرے اخبار کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتا ہوں۔

چونکہ اب سوشل میڈیا کا زمانہ آگیا ہے۔ سفر کرنے کا قابل نہیں رہا ہوں لیکن اکثر بیٹوں کی مدد سے موبائل فون پر اپنے صوبے کے مخلتف علاقوں کو دیکھ کر اپنی انکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ چونکہ اخبار کا مستقل قاری ہونے اور حالات واقعات پر خبر رکھنے کی وجہ سے مجھے معلوم ہے ۔اخباری بیانات، جب ہم ادنی سیاسی کارکن ہوا کرتے تھے تو اخباری بیان لیڈر کا اپنا ہی نقطہ نظر ہوتا تھا لیکن آج کل چالاک لوگ پی آر او بن کر سیاست دانوں کے بیانات ان کے نام سے منسوب کرکے جاری کرتے ہیں جس سے بیان والا خود بھی لاعلم ہوتا ہے۔

اس وجہ سے میں قدوس بزنجو جیسے نوازئیدہ اور سیاسی زعما کی قرابت سے محروم رہنے والے لوگوں کی بیانات کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہا ہوں۔ کچھ دن قبل بیٹے نے سول ہسپتال کوئٹہ میں موجود بلوچستان کے لئے خون کے آنسو رونے والے اسپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو کی ویڈیو دکھائی تو یقین ہوا کہ یہ اپنا مفاداتی نقطہ نظر ہے۔ اگر یہ سیاسی ویڈیو نہیں تھی تو قدوس بزنجو جب وزیراعلی بلوچستان تھے تو انڈس ہسپتال کراچی والے کوئٹہ کے سرکاری ہسپتالوں کو اپنی نگرانی میں میں لینے کے لئے کوئٹہ آئے اور اس سلسلے قدوس بزنجو وزیراعلی سکریڑیٹ ملاقات تو اس وقت قدوس بزنجو نے یہ بوسیدہ ہسپتال دینے سے انکار کیوں کیا؟

اپنے حلقہ انتخاب آواران میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو آخری بار کب گئے ہیں؟ اور وہاں کے سرکاری ہسپتالوں، سکولوں کی کیا حالت زار ہے؟ انہوں نے چائے کی پیالی میری طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ میں چائے کی پیالی کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ان سے لی لیکن ان کی آنکھوں کی حیرت گویا ختم نہیں ہورہی تھی۔ وہ حیرت زدہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے گویا ان کے سامنے میں نہیں قدوس بزنجو بیٹھا ہو۔ ان کے لہجے میں کراہت اور تلخی کا عنصر بڑھتا جا رہا تھا۔ نسل در نسل آواران کی شاہ کا منصب سنبھالنے والے قدوس بزنجو نے اب تک آواران میں کتنا پیسہ خرچ کیا ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟ اس کے باوجود آج بھی وہاں کا بچہ کیوں مایوس ہے؟ کیونکہ وہاں کاغذی ترقیاتی عمل ہوا ہے زمینی حقائق مختلف ہیں۔ ترقی صرف سرکاری کاغذوں میں کرائی گئی ہے۔ میں سمجھ سے قاصر ہوں کہ جو شخص اپنے چھوٹے حلقہ انتخاب کے مسائل حل نہیں کرسکتا ہے وہاں جانا گوارا نہیں کرتا ہو اس کی دل میں پورے بلوچستان کی عوام کی محبت کسی جاگی قدوس استعفیٰ کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ میں نے ہمت کی اور عرض وہ استعفی نہیں دیں گے اگر وہ اس قدر حکومت کی کارکردگی نالاں ہیں تو اخلاقی طور پر جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو سب سے پہلے استعفی دے دینا چاہیے تھا۔

چائے کہ گھونٹ کو اپنے حلق سے نیچے اتارتے ہوئے وہ بولے بیٹا تم چھوٹے ہو شاید تمھیں یاد نہ ہو جناح روڈ کوئٹہ کی گپ یہ 80 کی دہائی کا زمانہ تھا۔ جب شام ڈھلتے ہی جناح روڈ کا منان چوک سے لے کر ریگل چوک تک کا دو رویہ روڈ مختلف مکتبہ فکر لوگوں کی منزل ہوتا تھا اس میں زیادہ تر تعداد کالجز اور یونیورسٹی سٹوڈنٹس کی ہوتی تھی۔ جن کی اپنی پہچان ہوتی تھی۔ لیکن وہیں پر آپ کی ملاقات دوسرے درجے کی سیاسی لیڈرشپ سے بھی ہو جاتی تھی۔

جو اپنے ہم خیال سٹوڈنٹس کے ساتھ بیٹھے ہوئے حالت حاضرہ پر گفتگو کر رہے ہوتے تھے۔ چونکہ شام کے بعد بعض دکانوں کے شٹر ڈاون ہو جاتے تھے اور ان دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھ کر دنیا جہاں کے موضوعات زیر بحث ہوتے۔  اس وقت چینک چائے کا رواج عام تھا جو کہ اب بھی ہے لیکن شاید جناح روڈ پر اب اس طرح نہیں ہے لہذا اسی تھڑے پر چینک چائے منگوا کر گفتگو یا بحث کی جاتی۔ ان وقتوں میں غم روزگار کے اتنے اندیشے نہیں تھے۔

زیادہ تر موضوع بحث سیاست ہوتی تھی چونکہ مارشل لاء کا دور تھا اور سیاست میں کھلے عام جلسے جلوسوں پر پابندی تھی لیکن یونیورسٹی اور کالجز میں یونینز وجود رکھتی تھیں۔ طالبعلم اور سیاستدان مل کر اس گھٹن کے ماحول میں مل بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے اور ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کی جاتی، مستقبل کے اندیشوں، وسوسوں، امیدوں کے لیے ایک لائحہ عمل ترتیب دینے کی کوشش ہوتی۔ اور پھر دس گیارہ بجے کے قریب محفل برخاست ہوتی سب اپنے اپنے گھروں کو یا باہر سے آئے ہوئے طالبعلم اپنے ہاسٹلز کی جانب روانہ ہو جاتے۔

اس زمانے میں چاہیے آپ کا تعلق بلوچستان کے کسی بھی شہر سے تھا۔ اگر آپ شام کے وقت جناح روڈ جاتے تو آپ کی ملاقات ضرور اپنے علاقے کسی نا کسی شخص سے ہو جاتی۔ پھر یوں ہوا کہ وقت بدلتا گیا اور تیزی سے بدلا۔ لوگوں کے ملنے ملانے، بات کرنے کے محور تبدیل ہوتے گئے۔ معاشرے میں دولت حاصل کرنے کی دوڑ لگ گئی۔ کچھ نے شاید جائز ذرائع سے دولت حاصل کی ہوگی لیکن زیادہ تر شارٹ کٹ لگانے لگے اور اس میں کامیاب بھی رہے۔

جب دولت آئی تو مل بیٹھنے کے طور طریقے بھی تبدیل ہوئے۔ کل تک جو شام ڈھلنے کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے کہ کب شام ہو اور جناح روڈ کے تھڑوں پر دوستوں سے ملاقات ہو۔ جہاں ایک چینک چائے پی کر گھنٹوں گفتگو ہو۔ اب ان میں چند ایک کبھی کبھار لینڈ کروزوں میں جناح روڈ سے گزرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن شاید ان تھڑوں پر اب بیٹھنا انہیں گوارا نہیں۔ یا شاید ان کے اس وقت کے رفقاء بھی اپنی دکان بڑھا گئے۔ اب شاید اجتماعی سوچ کی جگہ انفرادی فائدے نے جگہ بنا لی ہے۔ میرے پاس ان باتوں کوئی مدلل جواب نہ تھا عافیت اسی جانی کے رخصت لی جائے میں چل پڑا راستے میں یہی سوچتا رہا کہ فیٖضولالا کی باتیں تلخ ضرورلیکن سبق آموز تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments