دیہاتی بچیوں پر رحم کرو


اکیلے اکیلے کہاں جا رہے ہو؟

چائے پینے ہوٹل پر۔

اور دوست کہاں گئے؟

اتوار ہے اس لیے سب اپنے اپنے گھر گئے ہیں۔ مسکرا کر جواب دیا۔

تم کیوں نہیں گئے؟

کچھ دن پہلے گیا تھا۔

مجھے چائے پلاؤ گے؟ مسکرا کر میں نے پوچھا۔

جی ہاں۔ آپ بھی چلو۔

گھر کیوں گئے تھے؟

چھوٹی بہن کی شادی تھی اس لیے گیا تھا۔

کتنی عمر ہے تمہاری؟

9 سال یا پھر 10

بہن کی شادی جلدی کیوں کرا دی؟ تعجب کے ساتھ میں نے پوچھا۔

ہمارے گاؤں میں رواج ہے وہ بچوں کی شادیاں جلدی کرا دیتے ہیں، میرے والدین میری بھی شادی کرا رہے تھے لیکن میں نے بولا کہ اگر میری شادی کراؤ گے تو میں گھر چھوڑ کر چلا جاؤں گا، اسی لیے وہ خاموش ہو گئے۔ میرے ساتھ اسکول میں جو بھی ساتھ پڑھتے تھے ان میں سے اکثر کی شادی ہو گئی ہے، میرے والدین میری بہن کی شادی کافی عرصہ پہلے کرا رہے تھے لیکن میرے انکار کی وجہ سے نہیں کر سکے، چونکہ میں گھر میں بڑا بھائی ہوں اسی لیے ابو والے میری بات مانتے ہیں، ہمارے گاؤں میں سب کی یہ سوچ ہے کہ لڑکی گھر میں آئے گھر کا کام کاج کرے، روٹی پکائے، برتن اور کپڑے دھوئے۔ بس لڑکی اسی لیے پیدا ہوئی ہے اور کوئی مقصد نہیں ہے اسی لیے جلدی شادی کرا دیتے ہیں۔ حیرت کے ساتھ جواب دیا۔

لو بھئی ہوٹل پہنچ گیا۔

اندر بیٹھیں یا باھر؟

اندر بیٹھتے ہیں۔

اپنی بہن کو تعلیم دلوائی؟

نہیں۔ ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجنے دیتے، کہتے ہیں کہ لڑکی گھر میں ہی رہے گھر سے باھر نہ نکلے۔ بس گھر کا کام کرے، لڑکی کا باہر نکلنا، تعلیم حاصل کرنا ہماری غیرت کے خلاف ہے۔

اسی وجہ سے میں اپنی بہن کو تعلیم نہیں دے سکا۔ معصومیت سے اس نے یہ جواب دیا۔

تو بھائی آپ سمجھاؤ نہ اپنے گاؤں والوں کو؟

وہ میری بات سمجھتے ہی نہیں۔ تھوڑا تیز لہجے میں جواب دیا اس نے۔

تم پڑھ کر کیا بنو گے؟

پائلٹ۔ ہنس کر جواب دیا۔

میں بھی ہنسا تو اس نے میرے ہنسنے پر مجھے بولا کہ میرا ٹیچر میرا یہ جواب سن کر کرسی سے کھڑا ہو گیا تھا۔

یہ کہانی نہیں بلکہ حقیقت بات ہے ایک معصوم، کمسن، بچے کی ہے جو میرے ساتھ ایک ہی ادارہ میں تعلیم حاصل کر رہا ہے اور جس کا تعلق ہمارے صوبہ سندھ کے قدیم شھر کندھ کوٹ کے دیہات سے تعلق رکھتا ہے، اور اپنے گاؤں کا واحد لڑکا ہے جو مسافری میں نکل کر تعلیم سے آراستہ ہو رہا ہے۔

اس کی باتیں سن کر میں حیران ہو گیا تھا اور میرا منہ رونے جیسا ہو گیا اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا اور یہی سوچتا رہا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے انسان بھی بستے ہیں کہ جو بیٹیوں کو رحمت نہیں بلکہ زحمت سمجھتے ہیں۔ افسوس کب ہمارا معاشرہ بیٹیوں کو شفقت کی نگاہ سے دیکھے گا کب اس معاشرے سے جہالت اور بیٹیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی سوچ ختم ہوگی، کب تک یہ معصوم بچیوں کی امیدوں کے خواب پورے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments