زمیں بنے باغ و بہار


ماسٹر صاحب کے اشارے کے ساتھ ہی بچے بیک آواز سندھی کے یہ اشعار گنگنانے لگتے :

”رستن تے چھڑکار کنداسوں۔ پاسن کھاں وڑکار کنداسوں“۔

یاد ماضی میں جھانکنے سے پرائمری اسکول دور کے حسین لمحات آج بھی ذہن کے پردے پر کسی وڈیو کے مانند چلنے لگتے ہیں۔ تعلقہ لیول پہ پوزیشن لینے والے ہمارے اسکول کے ہونہار بچے اپنے ہاتھوں سے ہرے بھرے درختوں اور رنگ برنگی پھولوں سے چمن کو سجاتے تو روزانہ سو ڈیڈھ سو کے قریب پھولوں سے اسکول کی فضا معطر رہتی تھی۔ چمن مہکنے لگتا تھا۔

اس چمن کی آبیاری میں ہمیں زیادہ دقت نہیں ہوتی تھی، بلکہ آسپاس پورے سونڈا کے علاقہ میں پھیلے درختوں کے پاس ہی ہمیں وافر مقدار میں بیج اور چھوٹے پودے مل جاتے۔ آہ! کسے خبر تھی کہ وہ ہرابھرا چمن اب صرف یادوں کے دریچے میں ہی رہ جائے گا!

جوں جوں نسل انسانی ترقی کر رہی ہے توں توں اس عظیم مخلوق (جوکہ کئی اعتبار سے انسان ذات کی محسن ہے ) کا تیزی سے قتل عام ہورہا ہے۔ پھولوں کی دلکش مہک کی جگہ اب جگہ جگہ پھیلی گندگی کا تعفن نسل انسانی کا منہ چڑا رہا ہے۔

سائنسدان بار بار ریڈ الرٹ جاری کر چکے ہیں۔ فضائی آلودگی اور آکسیجن کے تناسب میں ردوبدل کی وجہ سے موسم میں تغیر ہورہا ہے۔ زیر زمین پانی تیزی سے کم ہورہا ہے۔ کہیں کسی کھنڈرات میں موجود خشک تنا زبان حال سے اس شعر کا مصداق بناہوا ہے :

سایہ طلب گئے جدھر، بول اٹھے وہیں شجر۔

آئے ہو اب مسافرو! جب ہمیں دھوپ کھا گئی۔

موسم سرما کا اختتام اور بہار کی ابتدا ہورہی ہے۔ مگر وہ بچے جن کی عمر ابھی چمن میں کھیلنے کی ہے، وہ برقی اسکرینوں کے سامنے رات دن فضولیات میں مصروف ہیں۔ حال میں ہر چوتھا بچہ چشمہ لگائے پھر رہا ہے، جبکہ آنکھوں کا قدرتی صحت و سکون سبزہ اب پارک و باغیچوں کی زینت بن کر رہ گیا ہے۔

اسے بڑھ کر المیہ کیا ہوگا کہ پاکستان جیسے ذرعی ملک کے بچے کاشتکاری اور شجرکاری کی اہمیت و طریقہ کار سے بالکل نا آشنا بن چکے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے ملک کو ذرعی دولت سے مالامال کرنے والا کسان طبقہ نسل نو کے لیے اجنبی بن گیا ہے۔

تعلیمی اداروں میں کھلی فضا میں فزیکل ایکٹیوٹیز کی جگہ اب ”ان ڈور گیمز“ و دیگر سرگرمیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ جبکہ شجرکاری اب اک رسم ہی رہ گئی ہے، جس کے لیے سالانہ ایک دن مختص کرکہ فوٹو سیشن اور نیوز کوریج پر ہی فوکس کیا جاتا ہے۔ درختوں کے معاملہ میں بے دھیانی کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کا مسئلہ پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے رہا ہے۔

یہ صورتحال دنیا سے تقاضا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ شجرکاری پر توجہ دی جائے۔ بچوں کو موبائل و انٹرنیٹ کی خیالی دنیا میں گم ہونے سے بچاکر انہیں اس حقیقی دنیا کا معمار بنایا جائے۔ گھروں اور تعلیمی اداروں میں شجرکاری کا ماحول بنایا جائے اور ہر گھر میں کم سے کم ایک درخت لازمی ہونا چاہیے۔

دین اسلام شجرکاری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ پودے اگانے جیسے انسان دوست عمل کو صدقہ جاریہ قرار دیتا ہے۔ اس کی تصدیق احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ لھاذا اس ضمن میں علماء کرام کی بھی خصوصی ذمہ داری بنتی ہے کہ عوامی اجتماعات و نجی مدارس میں انسانیت کو درپیش اس چیلینج کے حل کے لیے شریعت کی بابرکت تعلیمات اس حوالے سے عام کریں۔

یہ فریضہ ہے میرا آپ کا اور ہر بشر کا اللہ کرے وہ دن نہ آئے جس کا اظہار شاعر نے ان الفاظ میں کیا ہے :

جب راستہ میں کوئی بھی سایہ نہ پائے گا۔

تب یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments