بُھولی بسری یادیں


بچپن میں ہمارے بڑے اپنے بچپن کی باتیں کرتے ہوئے افسُردہ ہو جاتے تو ہم حیران ہوتے تھے کہ بڑوں کو کیا غم ہے۔ آرام سے حُکم چلاتے ہیں۔ ہمیں ہر کام کے لئے وقت کی پابندی کرنی پڑتی ہے اور اِ ن پر ایسی کوئی مُصیبت بھی آن نہیں پڑی ہے۔ والدین کہتے تھے وقت کی قدر کرو یہ وقت نہیں ملے گا لیکن ہم کو بڑے ہونے کی جلدی تھی تب بڑے سمجھاتے تھے کہ جب بڑے ہو گے تو تمہیں قلق ہوگا۔ کیا پتا تھا کہ جوں جوں بڑے ہوگے تجربہ بڑھے گا اور خیالات میں پُختگی آتی جائے گی اور یہ قلق بھی بڑھتا جائے گا۔ خواب پھیکے پڑ جائیں گے۔ بڑے ہو کر معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مُشکل ہے۔ جینے کے لئے مرتبے، مرتبے کے لئے پیسے اور پیسے کے لئے مُقابلہ ہوتا ہے۔ اور مُقابلے کے لئے جُھوٹ بولنا پڑتا ہے، دھوکا دینا پڑتا ہے۔ یہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ بس مطلب ہے۔

ان باتوں کو کافی سال گُزر گئے ہیں اور اب مُجھے دوراندیش، جہاندیدہ اور عقلمند ہوجانا چاہیے تھا لیکن شومئے قسمت اتنا طویل عرصہ بھی مُجھ میں کوئی تبدیلی نہ لا سکا۔ اب بھی جب زندگی بُری طرح پچھاڑ دیتی ہے تو میں ماضی کے جھروکوں میں جھانکتا ہوں اوربقول میرے عزیز دوست ظفر اقبال کہ حارث تُم ناسٹولیجیا کے دائمی اور لاعلاج مریض ہو۔ لیکن کیا کریں اپنے دِل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمیشہ اپنے ماضی کے اوراق کی ورق گردانی کرتا رہتا ہوں اور آہیں بھرتا رہتا ہوں۔

کل کا کالم یادِ ماضی لکھا تو کافی دوستوں نے سراہا۔ آپ کی مُحبت کا شکریہ۔ پچھلے کالم پر کافی دوستوں نے تبصرہ کیا لیکن فیصل عُثمانی صاحب کا تبصرہ بہترین تھا کہ یہ آپ کا بچپن تھا یا ہمارا۔ بس اُسی وقت خیال آیا کہ کیوں نہ ایک سلسلہ شروع کیا جائے جس میں ہم گزرے ہوئے ماہ سال یاد کرکے خوش ہوں گے۔ تو آج کا کالم ایک اور حسین یاد کے نام۔ ہم جب چھوٹے تھے تو رمضان کا انتظار بہت بے صبری سے کرتے تھے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے بچپن میں ناچ گانے والی سپیشل رمضان ٹرانسمیشن نہیں دیکھی تھی۔

جب سحری کا وقت ہوتا تھا تو سارا کُنبہ اُس گھڑی میں جاگتا تھا چاہے اُس نے روزہ رکھنا ہو یا نہ ہو۔ مُختصر مُدّت کی باوقار سی سحری ٹرانسمیشن جس میں نہ ہی پُرشکوہ سیٹ ہوتے تھے نہ ہی زرق برق لباس والے دلکش چہرے۔ بس حرم پاک یا مسجدِ نبوی کی بیک گراؤنڈ کے ساتھ پُرسکوں سی حمد ِ باری تعالیٰ یا نعتِ رسولِ ﷺ ہوتی تھی۔ چاہے وہ ”مُظفّر وارثی کی میرا پیمبر عظیم تر ہے“ یا پھر مصری پیرائے میں اسمائے باری تعالیٰ ہوں اتنا سکون ملتا تھا کہ دِل کرتا تھا کہ یہ لمحات کبھی ختم نہ ہوں۔

اذانِ فجر کے بعد نشریات ختم اور نماز کی ادائیگی ہوتی تھی۔ ہماری والدہ مُحترمہ ہم کو نماز کے بعد سونے نہ دیتی تھیں۔ وجہ کہ اب سکول کالج کی پڑھائی کرو۔ اُن کا خیال تھا کہ سحری کے بعد کا وقت پڑھائی کے لئے بہترین ہوتا تھا۔ لیکن اُن کو کون سمجھاتا کہ دو پراٹھوں، فرائی انڈے اور لسّی کے بعد وہ وقت اِستراحت کے لئے زیادہ بہترین تھا۔ لیکن ہماری والدہ سے اختلاف کرنا خود کو چلتی ٹرین کے آگے پھینکنے کے مترادف تھا اس لئے طوعاً کرعاً مان لیتے تھے۔

اگلے کالموں میں آپ کو ہمارے تشّدُد زدہ ماضی کے بارے میں مزید جاننے کا موقع مِلے گا۔ رمضان میں سکول میں جلدی چُھٹی ہونے کی خوشی کا احساس بڑا مسحُور کُن ہوتا تھا۔ گھرآکر نماز کے بعد امّی کی طرف سے سونے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ لیکن عصر کے بعد سونے کی اجازت نہ تھی۔ پورے دن کا روزہ ایک طرف اور عصر سے مغرب کا اِنتظار ایک طرف۔ اور آخری آدھا گھنٹا تو گویا ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ امّی تو عصر سے پہلے ہی افطاری کے انتظامات میں جُت جاتی تھیں۔

وقت افطار سارا گھر کھانے کی میز پر ہوتا تھا۔ نگاہ گھڑی پر اور سوچ پکوڑوں میں ہوتی تھی۔ جب وقتِ افطار ہوتا تو ٹی وی پر افطار ٹرانسمیشن میں قاری صاحب دُعا کراتے تواُس وقت اِس بات کا احساس بڑی شدّت سے ہوتا کہ سحری کی دُعا کتنی چھوٹی ہوتی ہے اور افطار کی کتنی لمبی۔ پھر اذان کے ساتھ کھانے پر ہلّہ بول دیا جاتا۔ پھر بوجھل شکم کے ساتھ بڑی مُشکل سے نماز ادا کی جاتی۔ اور اُس کے بعد عشاء کا انتظار شروع ہوجاتا۔ اور بغیر کسی گیم شو دیکھے ہم اگلے روزے کے انتظار میں محو ہو جاتے۔ مُجھے اچھی طرح یاد ہے بچپن میں روزہ نہ رکھنے کے باوجود آخری روزے کی افطار ہمیشہ افسُردہ ہوتی تھی۔ وجہ رمضان المُبارک کا رُخصت ہونا ہوتا تھا۔

راقم کا تعلق اس قبیل کے لوگوں میں سے ہے جِس نے ضیائی مارشل لاء کے دور میں آنکھ کھولی۔ میں ضیاء دور کی پالیسیوں کا بہت بڑا ناقد ہوں لیکن کچھ اقدام ایسے بھی تھے جو کہ قابلِ تحسین ہیں۔ اُن میں سے ایک میڈیا پر کڑی نگاہ رکھنا تھا۔ چونکہ ایک ہی سرکاری ٹی وی چینل ہوتا تھا جس کو ریٹنگ کی دوڑ سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ایک بات یا د رکھئے گا ہم نے رمضان کا وہ دور جہاں اِس ماہ کی روح سمجھی جاتی تھی دیکھا ہوا ہے لیکن ہماری اولاد نے نہیں۔

اُن کے لئے رمضان وہی ہے جو وہ آج کل دیکھ رہے ہیں۔ کل جب ہم نہیں ہوں گے تو کوئی اُن کو بتانے والا بھی نہ ہوگا۔ تب وہ اس غلط کو صحیح سمجھ رہے ہوں گے۔ تو یہ ہمارا فرض ہے کہ اس لغو نشریات کا بایئکاٹ کر کہ ان چینلز کی ریٹنگ گرائیں تاکہ یہ مجبور ہو کر خود یہ خرافات بند کردیں۔ ہماری حکومتی ادارے اس ضمن میں بالکل خاموش ہیں اور رہیں گے۔ اب یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو وہ رمضان دکھانا چاہتے ہیں جو ہم نے دیکھا یا وہ جو وہ آج دیکھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments