نام نہاد ’’عرب سٹریٹ‘‘ کی خاموشی


ماضی کو بھلانا ممکن نہیں۔ کچھ یادیں آپ کو ہمیشہ توانا اور بے چین رکھتی ہیں۔ کچھ کہنے یا کرنے کو مجبور۔چند واقعات مگر ایسے بھی ہوجاتے ہیں جو آپ کو گزری عمررائیگاں کے سفر کی صورت دیکھنے کو مجبور کردیتے ہیں۔

امریکی صدر نے اسرائیل کے وزیر اعظم کو دائیں ہاتھ بٹھاکر اپنے تئیں فلسطین کا مسئلہ ’’حل‘‘ کردیا ہے۔جو نقشہ اس حل کے لئے اس نے تیار کیا اسے Deal of the Century یعنی اس صدی کا سب سے بڑا سمجھوتہ بھی قرار دیا گیا ہے۔

اس ’’سمجھوتے‘‘ کے بنیادی نقوش ٹرمپ کے یہودی النسل داماد کشنر نے تیار کئے ہیں۔وہ گزشتہ دو برسوں سے اس کے لئے رائے عامہ ہموار کررہا تھا۔

اس صدی کے سب سے بڑے ’’سمجھوتے‘‘ پر عمل کا آغاز ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے کیا تھا۔امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل ہوچکا ہے۔ہاتھی کے پائوںمیں سب کے پائوں والے محاورے پر عمل کرتے ہوئے دُنیا کے بیشتر ممالک بھی اب تل ابیب کے بجائے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرچکے ہیں۔نام نہاد مسلم اُمہ اس ضمن میں کوئی مزاحمت دکھانہیں پائی۔ مجھے یقین ہے کہ ’’اس صدی کے سب سے بڑے سمجھوتے‘‘ کو بھی بلاچوں وچرا ہضم کرلیا جائے گا۔

کالم کا آغاز مگر یادوں کے ذکر سے کیا تھا۔ابھی سکول کا طالب علم تھا کہ 1967میں عرب،اسرائیل جنگ چھڑگئی۔ عربوں کی حمایت میں لاہوری سڑکوں پر نکل آئے۔میں بھی بہت اشتیاق سے ان میں شامل ہوجاتا۔وہاں سب سے مقبول نعرہ ’’ناصر،یاسر الحبیب،فضل،فضل تل ابیب‘‘۔ اس نعرے کا مطلب جاننے کے لئے مجھے کئی برس لگے۔ لاہور کے مظاہرین مصر کے صدر جمال عبدالناصر کو اس نعرے کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کے رہ نما یاسر عرفات کا دوست بن کر ان دنوں کے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کی طرف بڑھنے کی شہ دے رہے تھے۔ ’’فضل‘‘ میری دانست میں ’’کرم‘‘ کا مترادف ہوا کرتا تھا۔بعدازاں مگر دریافت ہوا کہ یہ ’’فدّل‘‘ کی طرح سنائی دیتا ہے۔یعنی (ض ،اُردو کا،د، بن جاتا ہے) اس کا مطلب ہوتا ہے ’’آگے بڑھو‘‘۔عرب ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا تو مزید علم یہ ہوا کہ روزمرہّ زبان میں یہ ’’پہلے آپ‘‘ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔آپ کسی سے ملاقات سے فارغ ہوں تو خداحافظ کہتے ہوئے میزبان آپ کو دروازہ دکھاتے ہوئے ’’فضل‘‘ کہتا ہے۔

1967کے برس عربوں کے لئے دکھائی گرم جوشی کو یاد کرتے ہوئے مجھے حیرت ہوئی کہ ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا میں ٹرمپ کی متعارف کردہ Deal of the Centuryکا ذکر تک نہیں ہوا۔ اس کی مذمت میں جلوس وغیرہ نکالنے کی گنجائش ویسے بھی موجود نہیں۔پاکستان ’’نیا‘‘ ہوچکا ہے۔جلسے،جلوسوں اور دھرنوں کی سہولت عمران خان صاحب اور ان کی تحریک انصاف کے لئے 2011سے 2018تک مسلسل سات برس تک میسر رہی ہے۔ان کی بدولت بالاخر ’’تبدیلی‘‘ آگئی تو جلسے جلوس ’’تخریب کاری‘‘ یا ’’غداری‘‘ شمار ہونا شروع ہوگئے۔

لوگوں سے توقع باندھی جارہی ہے کہ وہ اپنی نوکری بچانے یادیہاڑی بنانے پر توجہ دیں۔باقاعدگی سے ٹیکس ادا کریں۔بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافے کو برداشت کریں۔عمران حکومت کو یہ عذاب ورثے میں ملا ہے۔2008 سے 2018 تک مسلط رہی حکومتیں ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پرمشتمل تھیں۔انہوں نے قومی خزانہ خالی کردیا ہے۔اب اسے بھرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ قومی خزانہ بھرنے کے لئے سیاسی استحکام درکار ہے۔’’آزادیٔ رائے‘‘ کے نام پر لگائے ’’تماشے‘‘ معاملات کو ’’غیر مستحکم‘‘ بنادیتے ہیں۔پاکستان کے ازلی دشمن وطن عزیز میں انتشار وافتراق کی آگ بھڑکانے کی سازشوں میں ویسے بھی ہمہ وقت مصروف ہیں۔ہمیں دانستگی یا نادانستگی میں ان کا آلہ کار بننے سے گریز کرنا ہوگا۔ریاست وحکومت کا ہر صورت اتباع لازمی ہے۔ہمیں ’’گھبرانا نہیں‘‘ کا حکم ہے۔ اگرچہ وضاحت یہ بھی فرمادی گئی ہے کہ ’’سکون فقط قبر ہی میں نصیب ہوتا ہے‘‘۔

ٹرمپ کی ایجاد کردہ Deal of the Centuryکے حوالے سے پاکستان کے ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائی بے اعتنائی کے بارے میں پریشان ہوتے ہوئے ذہن میں خیال یہ بھی آیا کہ 5اگست 2019سے ہماری ’’شہ رگ‘‘ کو مودی سرکار نے مزید وحشت سے دبوچ رکھا ہے۔ہم اس کے بارے میں تقریباََ لاتعلق دکھائی دے رہے ہیں۔ ’’شہ رگ‘‘ پر لگائے زخموں کو بھلانے والے فلسطینیوں کے غم کا احساس وادراک کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔

کئی برسوں تک عالمی اخبارات میں Arab Streets کا بہت ذکر رہا ہے۔آج سے چند ہی سال قبل ایک ’’عرب بہار‘‘ بھی آئی تھی۔ ہمیشہ بے قرار و بے چین شمار ہوتی Arab Street بھی مگر ’’اس صدی کے سب سے بڑے سمجھوتے‘‘ کے بارے میں خاموش ہے۔ ’’عرب بہار‘‘ کے بعد جو خزاں مسلط ہوئی ہے وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ’’اس صدی کا سب سے بڑا سمجھوتہ‘‘ ہمیں دو ایسے افراد یعنی امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر اعظم نے دیا ہے جو اپنے ملکوں میں اختیارات کا نا جائز فائدہ اٹھانے کے ’’مجرم‘‘ تصور ہورہے ہیں۔ ٹرمپ کے خلاف یوکرین کی حکومت کو اپنے سیاسی مخالف جوبیڈن کے بیٹے کے خلاف ’’کچھ ڈھونڈنے‘‘ پر اُکسانے کا الزام لگا ہے۔

یوکرین کی حکومت کے پاس مگر ہمارے ’’احتساب بیورو‘‘ جیسا متحرک ادارہ موجود نہیں۔ اسے جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال صاحب جیسے Delivererبھی نصیب نہیں ہوئے۔ٹرمپ کی براہِ راست ٹیلی فون گفتگو بھی اس حکومت کو بیڈن کے بیٹے کے خلاف کرپشن کا کیس بنانے پر مجبورنہیں کر پائی۔ ٹرمپ کی گفتگو مگر لیک ہوگئی۔امریکہ میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔اس کیخلاف مواخذے کی تحریک آگئی۔ٹرمپ کے مخالفین کے پاس لیکن اسے کامیاب بنانے کی سکت موجود نہیں ہے۔ امریکی عوام کی 75فی صد تعداد اس کے دور میں معاشی رونق سے مطمئن ہے۔اسے دوبارہ منتخب کرنے کے خواہش مندوں کی تعداد بھی ابھی تک مؤثر وبالاتر ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم کا حال مگر پتلا ہے۔وہ حالیہ انتخاب میں واضح اکثریت حاصل نہ کرپایا۔ نئے انتخابات کروانے کو مجبور ہوا۔اس کے خلاف مگر کاروباری دوستوں سے بھاری بھر کم تحائف لینے کے ٹھوس شواہد حاصل کرلئے گئے ہیں۔اسرائیلی قانون کے مطابق مگر اسے وزیر اعظم ہوتے ہوئے عدالتوں کے سامنے پیش نہ ہونے کاحق حاصل ہے۔اسرائیل کو جناب ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ صاحب جیسے باضمیر جج بھی نصیب نہیں ہوئے۔ نیتن یاہو کی بچت کی اب ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ تازہ انتخاب کی بدولت اسے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا حق مل جائے۔مواخذے کی تحریک کی زدمیں آئے ٹرمپ نے اپنے ’’دوست‘‘ نیتن یاہو کو درحقیقت Deal of the Centuryکے ذریعے سیاسی کمک فراہم کردی ہے۔

بظاہر’’بدعنوان‘‘ تصور ہوتے دورہ نمائوں کے مابین ہوا معاہدہ بنیادی طورپر اسرائیل کو حق عطا کرتا ہے کہ وہ مزید فلسطینی علاقوں کو اپنے نقشے میں باقاعدہ شامل کرکے اپنے قبضے میں لے آئے ۔ فلسطینیوں کو ’’آزادریاست‘‘ فراہم کرنے کا وعدہ اگرچہ اپنی جگہ اب بھی موجود ہے۔اس وعدے پر عملدرآمد کے لئے فلسطینیوں کو کم از کم چار برس تک ’’نیک چال چلن‘‘ دکھانا ہوگا۔ اس کے بعد’’آزاد ریاست‘‘ کے نام پر انہیں جو ’’ٹکڑے‘‘ ملیں گے ان کی حیثیت محض ایک بے حیثیت وبے وقار ’’راجوڑے‘‘ جیسی ہوگی۔

اسرائیل اپنی حدود کو وادیٔ اردن تک بڑھاتا چلا جائے گا۔نام نہاد ’’عرب سٹریٹ‘‘ کی خاموشی نے نیتن یاہو کو بلکہ مزید جارحانہ بنادیا ہے۔عرب لیگ کی جانب سے بھی محض ایک قرار داد آئی ہے۔اسرائیل کے مصر اور اردن جیسے ہمسائے خاموش ہیں۔ شام بذاتِ خود خانہ جنگی کا شکار ہے۔لبنان کی حزب اللہ میں ماضی والا دم خم نہیں رہا۔ایران اور ترکی کی جانب سے دھواں دھار مذمت البتہ آئے چلی جارہی ہے۔

جمال عبدالناصر کو عرصہ ہوا مصر ہی کے انوارالسادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد ماضی کا محض ایک کردار بنادیا تھا۔یاسر عرفات کو 1970کی دہائی میں اردن سے لبنان دھکیل دیا گیا۔ دس برس بعد وہاں صابرہ اور شطیلہ ہوگئے۔یاسر عرفات اور اس کی تنظیم کو تیونس میں پناہ لینا پڑی۔ اس کی PLOکو مزید کمزور کرنے کے لئے ’’حماس‘‘ کے نام پر ’’حقیقی مجاہد‘‘ اُبھرے۔ ان ’’مجاہدین‘‘ کو دہشت گردی کی علامتیں بنادیا گیا۔فلسطینیوں کے مابین ’’مسلم،مسیحی یک جہتی‘‘کو ’’حقیقی اسلام‘‘ پرعمل کی تلقین نے پاش پاش کردیا۔ دُنیا کے سامنے ’’فلسطینی کاز‘‘ محض ’’مسلم کاز‘‘ بن کے رہ گیا۔

کشمیر کے ساتھ بھی ایسا ہی سانحہ ہوا ہے۔ ان سانحات پر تفصیلی غور کی مگر ہمیں فرصت ہی میسر نہیں۔ رضا باقر صاحب نے مصر کے عوام کو ٹیکس دینے کا عادی بنادیا ہے۔ ان دنوں وہ یہ فریضہ پاکستان میں ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ہماری معیشت کو ’’بحال‘‘ کرکے ’’مستحکم‘‘ بنانے کی فکر میں مبتلا ہیں۔ہمیں سرجھکاکر ان کی کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ دل اداس وپریشان ہوجائے تو ٹک ٹاک سے رجوع کریں اور ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے Sequel کا انتظار۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments