خواجہ صوفی محمد سراج شاہ تاجی


ایڈی اوکھی یار شفا کوئی نہیں
تیرے ہک دیدار دی مار اے

گزشتہ دنوں سجادہ نشین درگاہ تاج الاولیا محترم خواجہ صوفی محمد سراج شاہ تاجی کی کراچی آمد ہوئی۔ محترم کے مریدین کی بڑی تعداد کراچی سمیت پورے پاکستان میں موجود ہے بلکہ نہ صرف پاکستان میں سلسلہ تاجیہ کے مریدین کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک بھی مقیم ہے۔ محترم کے مریدین میں سے کچھ خاکسار کے رابطے میں بھی ہیں۔ صوفی صاحب کی کراچی آمد کے حوالے سے انہوں نے اطلاع دی اور ملاقات کے لئے وقت بھی لے دیا۔ بلاشبہ پاکستان بالخصو ص سندھ میں اسلام کے پھیلنے کی بڑی وجہ صوفیا کرام اور اولیا ہی ہیں۔ سلسلہ تاجیہ کے روحانی پیشوا الحاج خواجہ تاج شاہ کانام بھی پاکستان کے ان بزرگان میں شامل ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان میں اسلام کی تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا، ایسی ہستی کے صاحبزادے سے ملاقات میرے لئے باعث فخر تھی۔

صوفیا کرام کا طریقہ تبلیغ ہمیشہ سے محبت ہی رہا ہے لہذا صوفی محمد تاج شاہ صاحب ملاقات کے بعدا اس بات اندازہ اچھے سے ہوگیا۔ صحافی دوستوں کے ہمراہ جب ملاقات کے لئے پہنچے تو نہایت عزت افزائی ہوئی۔ ملاقات میں صوفی صاحب نے اپنے بابا محمد تاج شاہ کے سالانہ عرس کے سلسلہ میں کراچی میں منعقد ہونے والی تقریب کی دعوت بھی دی۔ تقریب عرس میں بھی شرکت کا فیصلہ کیا اور مقررہ تاریخ اور وقت پر اس مقام پر پہنچ گئے۔

صحافت کے دوران یہ ایک الگ سا ہی تجربہ تھا، کبھی ہم کسی سیاسی شخصیت کی پریس کانفرنس میں جاتے، کبھی کسی جرم کی تحقیق کرتے تو کبھی کھیلوں کے میدانوں کا دورہ کیا جاتا لیکن اس بار کی صحافت کچھ مختلف تھی، بہرحال عرس کے سلسلہ میں منعقد محفل شان اولیا میں پہنچے۔ تقریب میں سندھ بھر سے مختلف سجادہ نشین حضرات تشریف لائے تھے اور ساتھ ہی علما کرام کی بھی ایک بڑی تعداد اسٹیج پر موجود تھی۔ مریدین کی بڑی تعداد اپنے پیرو مرشد کے دیدار کے لئے آرہی تھی اور عقیدت کا اظہار کررہی تھی۔

محفل میں کسی قسم کی کوئی اختلافی بات نہ کی گئی، تمام آنے والے مہمانوں نے صرف اللہ کے دین کی جانب آنے کی دعوت دی۔ سجادہ نشین درگاہ تا الاولیا نے اپنے خطاب میں شجرہ بیان کیا بعد ازاں صرف محبت و امن کی دعوت دی اور اپنے مریدین کو بھی اس پیغام کو آگے پہنچانے کا درس دیا۔ تھوڑی تحقیق کے بعد مجھے ایک مرید سے یہ علم بھی ہوا کہ ہر جمعرات کو محفل کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مریدین کو دینی تعلیم دی جاتی ہے اور ذکر کے ساتھ ساتھ ان کی دینی اصلاح بھی کی جاتی ہے۔

بلاشبہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان اولیا کا فیضان ہے۔ تحریک آزادی ہند میں صوفیا اور علما کا کردار نہایت اہم اور اس کے بعد بھی دفاع پاکستان میں صوفیا کرام، سجادہ نشین حضرات اور ان کے مریدین نے اہم کردار ادا کیا، 1965 کی جنگ میں پیر پگارا پیر مردان شاہ صاحب نے اپنے مریدین کے ہمراہ سندھ کے بارڈر کی حفاظت کی۔ صوفی وہ ہے جو خوفِ خدا اور کشتہٗ حبِ رسول (ﷺ) کا مظہر ہوں۔ تحریک آزادی کے دور میں صوفی وہی کہلاتا تھا جو علوم شریعت و طریقت پر کاربند ہوتا تھا۔

تحریکِ پاکستان ایک طویل کاوش کا نام ہے۔ کسی بھی دور کو دیکھا جائے مشکلات اُسی دور کے اعتبار سے سامنے آتی رہیں، کبھی مسلمانوں کی گرفتاری، کبھی ہندو انگریز گٹھ جوڑ سے دین اسلام کے خلاف کی جانے والی سازشیں اس مشکل دور میں صاحب النظر لوگ اپنی دوربینی، دور اندیشی اور مضبوط قوتِ ارادی سے فیصلے فرماتے رہے اور اُمتِ محمدیہ کو راہِ راست پر گامزن کرتے رہے۔ علمائے دین اور مشائخِ عظام ہر دور میں دینِ اسلام کے تحفظ اور آبروئے ملتِ واحدہ کے لئے سرگرمِ عمل رہے اور اب بھی اپنے اس مشن پر گامزن ہیں۔ اس دور میں بھی یہ فکر ہمیشہ دامن گیر رہی کہ کہیں ہندوانہ تہذیب و ثقافت اسلامی ثقافت پر اثر انداز نہ ہوجائے۔ اسی فکر کے پیشِ نظر حضرت مجددِ الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے بھرپور کردار ادا کیا۔

مسلمانان برصغیر کے لئے الگ وطن کی کاوشوں کا آغاز ہوا تو علما کرام اور صوفیائے عظام نے قیام پاکستان کی مخالف قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور قائداعظم کے ساتھ دیوار کی طرح کھڑے رہے۔ اس دور میں کچھ علما مسلم اتحاد کے پیش نظر برصغیر کی تقسیم کے حق میں نہ تھے، یہ ان کی دور اندیشی لیکن مودی کی پالیسوں، کشمیر و ہند کے حالات نے ثابت کردیا کہ قیام پاکستان کا ایجنڈے برصغیر میں اسلام کی سربلندی کے لئے لازم تھا۔ علما و صوفیائے کرام نے تحریک آزادی میں جو کلیدی کردار ادا کیا اس کا تذکرہ حضرت قائداعظم نے بھی کئی بار کیا۔ تمام مشائخ اور صوفیائے کرام کا مطمح نظر ایک ہی رہا اور وہ تھا کلمہ حق۔

کہیں نہ کہیں ایسا ہوگا کہ کچھ لوگا اس نام کو صرف استعمال کررہے ہوں گے لیکن پاکستان میں صوفیا کی اکثریت ایسی موجود ہے جو استقامت کے پیکر ہیں اور اپنے مریدین کے ہمراہ ہر گھڑی وطن عزیز پر جان دینے کو تیار رہتے ہیں، سلسلہ تاجیہ کے سردار صوفی محمد تاج شاہ صاحب کے عرس کی تقریب میں جاکر ایک بات نہایت اچھی لگی ہے سجادہ نشین صوفی محمد سراج شاہ اپنے مریدین کو طالب علموں کی طرح سمجھتے ہیں ان سے دین کی تعلیمات کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں اور ان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وطن عزیز اسلام کے نام پر قائم ہے پاکستان کی بقا اسلام کی بقا ہے لہذا جب بھی وطن عزیز کو ہماری ضرورت ہوئی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اپنی جان کے نظرانے پیش کریں گے، یہ بیانات اس بات کی دلیل ہیں تمام پاکستانی اپنی پاک فوج کے ہمراہ ملک کے دفاع کے لئے کھڑے ہیں اور قیام پاکستان کی طرح آج بھی سب اس ایجنڈے پر متفق ہیں کہ پاکستان دراصل صرف زمین کا ٹکرا نہیں بلکہ ایک ایسی درسگاہ یا پھر یوں کہہ لیں عبادت گاہ ہے جہاں ہم اپنی زندگیاں اسلام کے مطابق آزادی سے گزار سکتے ہیں۔ پاکستان مخالف ہر قوت یہ بات جان لے کہ ہم اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments