رقص نسوانی اور چترالیوں کے برانگیختہ جذبات


پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک گلگتی لڑکی کے رقص کی وڈیو شئیر کی گئی اس کے بعد سوشل میڈیا کے اوپر طوفان برپا ہوا، اس وڈیو پر جو کمنٹس دیے گئے ان میں سے زیادہ تر تو بیان کرنے کے بھی قابل نہیں۔ اتنے فحش اور گھٹیا الفاظ کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے یہ مجھے پڑھے لکھے ڈگری ہولڈز سے توقع بھی نہیں تھی۔ ایسا لگا کہ بعض لوگ ابھی بھی جنگلی زندگی گزار رہے ہیں۔

ان پر بات کرنا یا اس کا جواب دینا وقت اور انرجی کا ضیاع سمجھتا ہوں البتہ سوشل میڈیا کے ایک سنجیدہ صارف کی پوسٹ پڑھنے کے بعد شدید مایوسی ہوئی۔ انہوں نے اپنی تحریر میں نہ صرف اس وڈیو کی بھرپور مخالفت کی ہے اور انہیں چترالی امن کو خراب کرنے کی سازش بتائی ہے، وہیں لڑکیوں کے فٹبال کھیلنے کے حوالے سے ہمارے موقف کو بھی اپنے تبصرے میں شامل کرتے ہوئے اس کی بھی بھر پور مذمت کی ہے۔

لڑکیوں کے فٹبال کھیلنے یا نہ کھیلنے کا مسئلہ اب کافی پرانا ہوچکا ہے اور چترال کی لڑکیاں فٹبال سمیت متعدد کھیلوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے جبکہ ایک چترالی فٹبالر لڑکی اب بین الاقوامی دنیا میں فٹبال کھیل رہی ہے یعنی یہ معاملہ اب کافی پرانا ہوگیا ہے۔ اس پر معاملے کو پھر سے کریدنا ارضی حائق سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ البتہ حالیہ طوفان بدتمیزی ایک کم سن لڑکی کے رقص کی وڈیو شئیر کرنے پر کھڑا ہوا۔ اس حوالے سے چند سوالات ہیں جو میں پوچھنے کی جسارت کررہا ہوں۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر مسیجز آتے رہتے ہیں جس میں اس مواد کا تذکرہ ہوتا ہے جس کو سوشل میڈیا میں شئیر کرنے پر قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔ اس میں پورنو گرافی یا فحش مواد، ملکی آئین و قانون سے متصادم مواد، توہین آمیز مواد، نفرت آمیز مواد، ملک سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والا مواد۔

اس کے علاوہ کوئی ایسی مواد جو ملکی آئین و قوانین کے مطابق غلط نہ ہو اس کو سوشل میڈیا پر شئیر کیا جاسکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک لڑکی کے رقص کی وڈیو کیا دیے گئے اس مواد میں شمار ہوتا ہے؟ کیا آپ اس وڈیو کو پورن کہہ سکتے ہیں، کیا یہ توہین آمیز وڈیو ز کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا اس وڈیو میں کسی کے خلاف نفرت کا عنصر موجود ہے؟ کیا یہ وڈیو ملکی آئین و قانون سے متصادم ہے؟ کیا اس وڈیو سے ملکی سلامتی کو کوئی خطر ہ ہے؟

اگر ان سارے سوالات کا جواب نفی میں ہے اور یہ وڈیو خالص صحت مند سرگرمیوں میں شمار ہو گی تو اس کو شئیر کرنے سے کسی کے جذبات کیوں برانگیختہ ہوجاتے ہیں؟ کیوں کسی علاقے کا پرامن فضا مکدر ہوگا؟ اور کیوں اس وڈیو سے نفرت و توہین کا چسکا لگا کر بھونڈی دلائل دی جاتی ہے۔

کیا اس قسم کے مواد ہماری ثقافت کا حصہ ہے یا نہیں اس پر پھر کبھی تبصرہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

البتہ جاتے جاتے یہ کہنا چاہوں گا کہ 2010۔ 11 کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں اس وقت چترال میں کیبل لائین بچھائی جارہی تھی تو ایک صاحب ہر دوسرے ہفتے پریس کانفرنس کرکے دھمکی دے رہے تھے کہ یہ سب کچھ فحاشی پھیلانے کی سازش ہے جو یہود و ہنود کی جانب سے یہاں کی جارہی ہے۔ پھر وہ کیبل بھی بچھائی گئی اور وہی لوگ اب اس کیبل سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ اس قسم کے لاتعداد واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments