تلخ نہیں شیریں


ذائقے میں مٹھاس بھلی لگتی جب کہ کڑواہٹ سے منہ کا ذائقہ تلخی سے آشنا ہوجاتا اور اُسے اُگلتے ہی بنتی ہے۔ اسی طرح لہجے بھی اپنی اثر پذیری رکھتے ہیں۔ اگر لہجوں میں مٹھاس کا عنصر غالب یا زیادہ ہو، زمانہ اُس فرد کا گرویدہ بن جاتا ہے، لیکن ضرورت سے زیادہ مٹھاس کو بھی دانا مناسب نہیں گردانتے، اسی لیے سیانے کہہ گئے ہیں، اتنے زیادہ میٹھے بھی نہ بنو کہ لوگ نگل جائیں اور نہ اتنے کڑوے کہ لوگ تھو تھو کرنے لگیں۔

ویسے بھی زیادہ مٹھاس صحت کے لیے نقصان کا باعث ہوتی ہے، شوگر ایسا دائمی مرض لگنے کا احتمال ہوتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کڑوے لہجے کوئی بھی پسند نہیں کرتا، خواہ بندہ حق پر ہی کیوں نہ ہو، اُس کا کڑوا لہجہ اُس کے لیے مشکلات کی وجہ ضرور بنتا ہے۔ اُس سے لوگ بات کرنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں کہ کہیں ہمارے ہی گلے کی ہڈی نہ بن جائے۔ تلخ لہجوں والوں سے لوگ کنّی کتراتے ہیں، خواہ وہ با اصول اور ایمان دار ہی کیوں نہ ہوں، اُن کی یہ خامی اُن کی تمام تر خصوصیات کو گہن لگانے کا موجب بن جاتی ہے۔ لہجوں کی تلخی اگر مٹھاس میں تبدیل ہوجائے تو خاصی مثبت سرگرمی گردانی جاتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ انسانوں کی عادات و اطوار میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے والے ہی سفرِ زیست کو احسن طریقے سے طے کرنے کے اہل قرار پاتے ہیں۔ یہی لوگ مثبت تبدیلیوں کو اپنی زندگیوں کا حصّہ بناتے ہیں۔ خود کو نہ بدلنے والوں اور انا کے خول میں بند رہنے والوں کا مقدر گوشۂ تنہائی ٹھہرتی ہے اور بالآخر عمر بھر کے پچھتاوے اُن کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔

دینِ اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو تلخ نوائی کی ممانعت اور نرم روی کو اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے ہمیں دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے زیست بسر کرنے کی ضرورت ہے۔ نرم لہجوں کے حاملین محفلوں کی جان ہوتے ہیں، لوگ اُنہیں سننا پسند کرتے ہیں، ان سے بات کرنے کو احسن تصور کرتے ہیں، اُن کے کہے کو باآسانی ردّ نہیں کرتے، اُن کی قدر و وقعت لوگوں کی نظروں اور دلوں میں بے پناہ ہوتی ہے۔ دُنیا میں وہی لوگ ناقابل فراموش قرار پاتے ہیں، شیریں بیانی، انسانیت کی بہتری اور فلاح و بہبود جن کا طرّہ امتیاز ہوتی ہیں، جن کے اقوال لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں۔

اس تمام تر تناظر میں ہمارے معاشرے پر نگاہ دوڑائی جائے تو لوگوں کی اکثریت تلخی سے لبریز رویوں کی حامل دِکھائی دیتی ہے، بات بات پر جن کا پارہ ہائی ہوجاتا ہے۔ کسی کی ذرا سی بات گوارا نہیں۔ برداشت کا مادّہ اُن سے رخصت ہوچکا ہے۔ گوناگوں مسائل کے باعث جو طرح طرح کے ذہنی و نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہیں اور افسوس اس کا علم بھی انہیں نہیں۔ گو دورِ جدید کی تمام تر آسائشات سے بہرہ مند ہورہے ہیں لیکن اعلیٰ معاشرتی اقدار سے کوسوں دُور یہ معاشرہ اور افراد روز بروز پستیوں کی طرف تیزی سے محوِ سفر ہیں۔ ہمارے اکثر لوگ ایک دوسرے سے تلخ گفتاری اور اپنا شملہ اونچا رکھنے کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ایک دوسرے پر برتری ہی اُن کا مطمح نظر ہے۔ عاجزی اور انکساری ایسی خصوصیات کا ان میں بے پناہ فقدان پایا جاتا ہے۔

خود کو باشعور اور عقل مند تصور کرنے والوں کی زبان اور لہجوں کی تلخیاں ہمہ وقت عیاں ہوتی ہیں۔ دوسروں سے گفتگو کا انداز ہی جارحانہ ہوتا ہے، تاہم توقع کرتے ہیں کہ کوئی ان سے بات چیت کرے تو اُس کے لہجے میں مٹھاس کا عنصر غالب ہو۔ ببول بو کر گلاب کی آرزو دیوانے کا خواب ہی گردانا جاتا ہے۔ فرد یوں فاتح عالم ہرگز نہیں بنتا، زمانے کو اپنا گرویدہ کرنے کے لیے نرم مزاجی، عجز و انکساری، اعلیٰ اخلاقیات، ادب و احترام وغیرہ ایسی خصوصیات ناگزیر ہیں۔

زندگی خدا کی انمول نعمت ہے، اس کو تلخی کے زہر کی نذر مت کریں۔ انا، غرور، تکبر، خودپسندی ایسی عادتوں کے خول سے باہر نکلیں۔ دوسروں کے لیے اپنے لہجوں میں مٹھاس کے عنصر کو شامل کریں۔ لوگوں کی بھلائی، بہتری اور آسانی کا باعث بنیں، اُن کی زندگیوں میں تلخی گھولنے سے اجتناب کریں۔ عجز و انکساری کو اپنی طبیعت کا حصّہ بنائیں۔ سادگی اختیار کریں۔ جاہ و حشمت کی لالچ و طمع سے دُور رہیں۔ پھر دیکھئے گا آپ کی زندگی کیسی آسان، پُرسکون اور اطمینان سے مزّین ہوجائے گی۔ آزمائش شرط ہے۔ ایک بار شیریں بیانی کا وصف اختیار کرتے ہوئے لوگوں کے لیے مثبت سوچ اختیار کرکے تو دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments