ہم اور مہمان نوازی


اچھے لوگ مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کرتے ہیں۔ مہمان کو زحمت نہیں، رحمت اور خیر و برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ گھر میں مہمان آنے سے عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ مہمان نوازی انبیاء علیہم السلام کا شیوہ ہے اسلام میں مہمان نوازی کو اخلاق حسنہ میں شمار کیا گیا ہے۔

مگر افسوس کے ساتھ ہم اپنے بزرگوں کے اس وصف کو بھولا تے جا رہے ہیں آج بھی مہمان نوازی تو ہوتی ہے مگر مہمان کو اللہ کی رحمت سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے سر سے عذاب سمجھ کر اُترا جاتا ہے یا یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر یہ ہماری طرف آتا ہے تو ہمیں اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ اپنی اوقات سے بڑھ کر صرف اپنی شان وشوکت دکھانے کے لیے اس کی مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ مگر مہمان نواز ی کا مزہ تو اس وقت آتا ہے جب کوئی غریب بھائی مہمان بن کر آئے جس سے حاصل وصول کی اُمید بھی نہ ہو اوردل میں کوئی لالچ نہ ہو صرف اللہ کی رضا مطلوب ہو۔

ٹھیک ہے جس کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اُسے دل کھول کر مہمان کی عزت و تکریم کرنی چاہیے مگرکچھ نہیں ہے تو اس ڈر سے مہمان نوازی کرنا ہی چھوڑ دے یہ بات اسلام کے اصولوں کے مطابق ٹھیک نہیں۔ پرانے وقت کی عورتیں بھی اپنے مردوں کو مہمان داری میں سپورٹ کرتی تھی مہانوں کے لیے اچھے اچھے کھانے بناتی تھی اور اپنے اور اپنے مردوں کے لئے ثواب لینے کا باعث بنتی تھی۔ مگر آج کی عورتیں اپنے مردوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ اسے کسی ہوٹل پر لے جاؤ ہم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے مہمانوں کا۔ مرد بیچارہ افرسودہ حالت میں مہمان کو ہوٹلنگ کرواتا ہے تو یہ ایک دو دفعہ تو ممکن ہے مگر ہر دفعہ ممکن نہیں۔ اس وجہ سے محبت اور خیروبرکت ختم ہوگئی ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتا ہے اسے مہمان کی تکریم کرنی چاہیے اور اس کا حق ادا کرنا چاہیے۔ پوچھا گیا اور اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: ایک دن اور ایک رات، اور ضیافت تین دن کے لیے ہے اس کے بعد صدقہ اور خیرات ہے۔

میزبان پر یہ فرض ہے کہ مہمان کی عزت و آبرو کا لحاظ رکھا جائے۔ آپ کے مہمان کی عزت پر کوئی حملہ کرے تو اس کو اپنی غیرت و حمیت کے خلاف چیلنج سمجھیئے۔

جب حضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں پر بستی کے لوگ بدنیتی کے ساتھ حملہ آور ہوئے تو وہ مدافعت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا۔

”یہ لوگ میرے مہمان ہیں۔ ان کے ساتھ بدسلوکی کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔ ان کی رسوائی میری رسوائی ہے۔ “

”حضرت لوط علیہ السلام نے کہا، بھائیو! یہ میرے مہمان ہیں، مجھے رسوا نہ کرو۔ خدا سے ڈرو اور میری بے عزتی سے باز رہو۔ “ (قرآن)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خود بنفس نفیس مہمانوں کی خاطر داری فرماتے تھے۔ جب آپﷺ مہمان کو اپنے دستر خوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے ”اور کھایئے ’اور کھایئے“ جب مہمان خوب آسودہ ہو جاتا اور انکار کرتا اس وقت آپ اصرار نہیں فرماتے تھے۔

مہمان کے سامنے اچھے سے اچھا کھانا پیش کیجئے۔ دسترخوان پر خورد و نوش کا سامان اور برتن وغیرہ مہمانوں کی تعداد سے زیادہ رکھیئے۔ ہو سکتا ہے کہ کھانے کے دوران کوئی اور صاحب آ جائیں اور پھر ان کے لئے بھاگ دوڑ کرنا پڑے۔ اگر برتن اور سامان پہلے سے موجود ہو گا تو آنے والا بھی عزت اور مسرت کرے گا مہمان کے لئے خود تکلیف اٹھا کر ایثار کرنا اخلاق حسنہ کی تعریف میں آتا ہے۔

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا۔ ”حضور! میں بھوک سے بے تاب ہوں۔ “

آپﷺ نے اُمہات المومنینؓ میں سے کسی ایک کو اطلاع کرائی۔ جواب آیا کہ یہاں تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر آپﷺ نے دوسرے گھر آدمی کو بھیجا۔ وہاں سے بھی یہی جواب آیا تو آپﷺ اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ ”آج کی رات کون اسے قبول کرتا ہے؟ “ ایک صحابی انصاری نے اس مہمان کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کی استدعا کی اور وہ انصاری مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔ ان کی بیوی نے کہا۔ ”ہمارے پاس تو صرف بچوں کے لائق کھانا ہے۔

” صحابی رسول نے کہا۔ “ بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تا کہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں۔ صبح جب یہ انصاری حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے دیکھتے ہی فرمایا۔ ”تم دونوں نے رات اپنے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا ہے وہ خدا کو بہت پسند آیا ہے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments