پانچ اگست دو ہزار انیس کا نوحہ


وہ پانچ اگست دو ہزار انیس کی ایک حبس زدہ دوپہر تھی۔ ایک ایسی دوپہر جب دنیا کے ایک حصے کو درد، اذیت اور آنسووں سے بھرا جا رہا تھا۔ انھیروں نے شہر بھر میں منادی کروا دی تھی کہ جہاں روشنیاں نظر آئیں انہیں فوری طور پر ضبط کر لیا جاے۔ قطار در قطار اندھیرے شہر میں بھیجے جا رہے تھے۔ روشنیوں کی رخصتی کا سفر جاری تھا۔ روتی، بلکتی اور سسکتی روشنیاں اب اندھیروں کی قید میں تھیں۔ روشنیوں، رنگوں اور خوابوں کے آنسو سمیٹنے والے اب خود ان اندھیروں کے مسافر تھے۔

مگر درد کا خریدار تو اس لمحے دنیا کا وہی حصہ تھا جبکہ اس کے قرب و جوار میں تو زندگی کے وہی معمولات تھے۔ کسی کو کچھ فرق نہیں پڑا تھا۔ میں بھی اندھیروں سے بے نیاز روشنیوں کے جھرمٹ میں اپنی ایک دوست کے ساتھ لاہور کے ایک ریسٹورنٹ میں زندگی کے خوبصورت رنگوں کو سمیٹنے میں مصروف تھی۔ ان رنگوں میں ہم ابھی پوری طرح بھیگے بھی نہیں تھے کہ اچانک سے فیس بک کے کچھ نئے نوٹفیکیشن میرے سامنے آ گئے۔ میری عادت ہے کہ حد درجہ مصروفیت کے باوجود میں اپنے فیس بک نوٹفیکیشن یا پھر واٹس ایپ میسجز چیک کرنا نہیں بھولتی۔

فیس بک پر کسی نیوز ویب سائٹ کا نوٹفیکیشن تھا کہ بھارت نے کشمیر کی آئینی حثیت ختم کر دی ہے اور ساتھ ہی کرفیو لگا کر پوری دنیا سے کشمیر کا مواصلاتی رابطہ منتطع کر دیا ہے۔ میں نے سرسری انداز میں خبر کو پڑھا۔ میرے لئے اس خبر میں اگر کچھ نیا تھا تو وہ کشمیر کی آئینی حثیت ختم کرنے والی بات تھی ورنہ کرفیو تو کشمیر میں چلتا ہی رہتا تھا۔ بہرحال میں نے موبائل ایک طرف رکھا اور اپنی دوست کے ساتھ ایک بار پھر انہی رنگوں میں بھیگنے لگی کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ ان خوبصورت لمحات کے رنگ پھیکے پڑیں۔

ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر میں نے دیکھا تو مجھے لوگوں کے چہروں پر کسی تکلیف اور بے چینی کے آثار نظر نہیں آے۔ ٹیلیویژن پر بھی معمول کے پروگرام جاری تھے۔ ہاں البتہ نیوز چینلز کو ایک موضوع مل گیا تھا اور باقی سب کچھ نارمل تھا۔ میرے شہر کی فضاوں نے ابھی ماتمی لباس نہیں پہنا تھا۔ گھر پہنچی تو کشمیری نغمے کی آواز سنائی دی۔ کسی چینل پر کشمیر سے محبت کا اظہار گیت کی صورت میں کیا جا رہا تھا۔ گھر کے تمام مکین معمول کے انداز میں اپنی زندگی کی کہانی لکھ رہے تھے۔ مگر ہماری گھریلو ملازمہ رضیہ کے چہرے پر خوف اور پریشانی کے ساے دیکھ کر میں ڈر گئی تھی۔

مجھے یاد آیا رضیہ کا تعلق کشمیر سے ہے اور اس کا ایک بھائی روزگار کے سلسلے میں بہت سالوں سے سرینگر میں تھا۔ رضیہ اکثر اپنے اس بھائی کا ذکر کرتی تھی۔ اسے ایسے اداس دیکھ کر میرا دل دکھ سے بھر گیا۔ میں اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔

”رضیہ، تم پریشان نہ ہو، کچھ دن لگیں گے کرفیو ختم ہو جاے گا۔ “

میں نے رضیہ کے ہاتھوں کو محبت سے تھام لیا تھا۔ ایک نامعلوم درد تھا جو اب دھیرے دھیرے اس کے وجود کے ساتھ ساتھ میرے وجود میں بھی منتقل ہوتا جا رہا تھا۔

”باجی، بڑی بری خبریں آ رہی ہیں، سنا ہے سارے رابطے ختم ہو گئے“

رضیہ اب رونے لگی تھی۔ شاید وہ بہت دیر سے اپنے آنسو ضبط کیے بیٹھی تھی۔ میری شکل میں اسے ایک ہمدرد ملا اور آنسووں کو باہر آنے کا راستہ مل گیا۔ میں اسے اپنے سینے سے لگائے بہت دیر تک تسلی دیتی رہی مگر مجھے لگ رہا تھا کہ اب کی بار یہ کرفیو جلد ختم نہیں ہوگا۔ رضیہ کے وجود پر آنسووں کا بوجھ بڑھتے بڑھتے چھے مہینے ہونے کو آئے تھے۔ وہ حسرت بھری نگاہوں سے اپنے قرب و جوار میں موجود مسکراہٹوں کی طرف دیکھتی ہے کہ شاید وہ بھی اس کے گھر کا راستہ دیکھ لیں مگر رنگوں اور مسکراہٹوں نے رضیہ کی طرح ہر کشمیری سے ناراضگی اختیار کر رکھی ہے۔

رضیہ کو لگتا ہے ڈل جھیل کے لہو رنگ پانیوں کے کچھ چھینٹے اب بھارت پر بھی پڑ گئے ہیں۔ دہلی پر بھی سرینگر کے اندھیروں کا سایہ پڑ گیا ہے۔ رضیہ کی ایسی باتیں سن کر مجھے اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ وہ کچھ کچھ ابنارمل ہو گئی تھی۔ اس سے کام ٹھیک طرح ہوتا بھی نہیں تھا۔ اس لئے میں نے اسے نوکری سے نکال دیا تھا۔ کل اچانک پانچ فروری کو وہ میرے گھر مجھ سے ملنے چلی آئی۔ اس کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ مجھے لگا کہ شاید اس کا بھائی واپس آ گیا ہے۔ میں بھی خوش ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی وہ خود ہی بول پڑی۔

”باجی بلال بھائی کی شہادت کی تصدیق ہو گئی ہے۔ “
مٹھائی کھاتے ہوے مجھے یقین ہوگیا رضیہ واقعی نارمل نہیں رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments