سپریم کورٹ کا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی سمیت تمام افسران کو ہٹانے کا حکم


سپریم کورٹ نے سندھ بلـڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ڈائریکٹر جنرل ظفر احسن سمیت تمام افسران کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سندھی مسلم سوسائٹی میں غیر قانونی تعمیرات سے متعلق درخواست کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ کسی کو اجازت نہیں کہ شہریوں کا استحصال کرے۔

سپریم کورٹ کا اپنے حکم نامے میں کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ تمام معاملات خود دیکھیں اور کسی ’ایماندار‘ افسر کو ایس بی سی اے کا ڈی جی تعینات کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے چیف سیکرٹری سندھ کو حکم دیا کہ ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول ظفر احسن کو ’آج ہی عہدے سے ہٹائیں اور تب تک چیف سیکریٹری تمام معاملات دیکھیں‘۔

عدالت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے ایک سال کے دوران گراؤنڈ پلس ٹو عمارتوں کی تعمیر سے متعلق دی گئی اجازت کی رپورٹ بھی طلب کر لی۔

یہ بھی پڑھیے

فضائیہ ہاؤسنگ: جہاں چار سال میں صرف چار عمارتیں تعمیر ہوئیں

’کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ تین سال میں مکمل کیا جائے گا‘

کراچی سرکلر ریلوے کی راہ میں تجاوزات رکاوٹ

کراچی

’حکمرانوں کی مفاد پرستی نے کراچی کا کیا حشر کر دیا‘

چیف جسٹس پاکستان نے کراچی میں تجاوزات سے متعلق کیس میں میئر کراچی، سندھ حکومت اور سیکریٹری بلدیات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’کراچی کسی زمانے میں نگینہ ہوا کرتا تھا؟ حکمرانوں کی مفاد پرستی نے شہر کا کیا حشر کردیا ہے، پورے پورے پارکس، قبرستان اور رفاحی پلاٹس غائب ہو گئے ہیں۔’

کراچی میں غیر قانونی تجاوزات اور سرکلر ریلوے سمیت ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ یہ تاثر عام ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پیسہ لیکر غیر قانونی تعمیرات کراتی ہے۔

چیف جسٹس نے کراچی میں بلاول ہاؤس کے سامنے بینظیر بھٹو پارک کی زمین پر ملٹی سٹوری عمارت اور مال تعمیر کرنے پر سوال اٹھایا اور کراچی ڈویلمپنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) سے دریافت کیا کہ کیا متعلقہ زمین کی الاٹمنٹ کا حکم نامہ ہے؟

جس پر کے ڈی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ زمین بورڈ آف ریوینیو نے الاٹ کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کے ڈی اے کی زمین بورڈ آف روینیو کیسے الاٹ کرسکتا ہے۔

عدالت نے حکم جاری کیا کہ عمارت کے مالک اخلاق میمن عدالت میں پیش ہو کر بتائیں کہ کیسے غیر قانونی زمین الاٹ کروا کے تعمیر کی گئی۔

عدالت نے کراچی کی راشد منہاس روڈ پر الہ دین پارک کی زمین پر تعمیر عمارت کو منہدم کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے نظرثانی کی درخواست مسترد کر دی۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ دو ایکڑ زمین غیر ملکی کمپنی کو کیسے دے دی گئی؟ کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے عمارت کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

یاد رہے کہ اس عمارت کے دو ٹاورز کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور الاٹیز 90 فیصد ادائیگی کرچکے ہیں۔

عدالت میں ایم اے جناح روڈ پر واقع ملٹی سٹوری بلڈنگ سی بریز پلازہ کے بارے میں نیسپاک کی رپورٹ پیش کی گئی۔ عدالت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کینٹونمنٹ بورڈ اور کے ڈی اے کو دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ وہ اس عمارت کو منہدم کرنے کا حکم دے چکے ہیں لہذا اس کو قائم رکھنے کا حکم دینے کا رسک نہیں لے سکتے، اگر اور کوئی محکمہ یہ رسک لینا چاہے تو اس کی مرضی۔

نیسپاک نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’عمارت مضبوط ہے، اس کی مرمت کی ضرورت ہے، عمارت 40 برس سے خالی ہے اور صرف دو فلور زیر استعمال ہیں۔‘

اس موقعے پر الاٹیز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ عمارت ہسپتال کے لیے نہیں بلکہ رہائشی عمارت کے طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ ’کینٹونمنٹ بورڈ نے عدالت میں غلط رپورٹ پیش کی تھی جس وجہ سے عدالت نے اسے منہدم کرنے کا حکم جاری کیا۔‘

چیف جسٹس گلزار احمد نے شہر میں سڑکوں کی تعمیر اور دیگر منصوبوں پر محکمہ بلدیات کے سیکریٹری روشن شیخ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’آپ کسی کے لاڈلے ہوں گے لیکن یہاں پر کسی کے لاڈلے نہیں ہیں۔ کبھی لیاری، منگھو پیر، پاک کالونی، لالو کھیت اور ناظم آباد گئے ہیں؟‘

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو کہا کہ ’آپ وزیر اعلیٰ سے معلوم کر کے بتائیں کہ شہر میں کام کیوں نہیں ہو رہے ہیں؟‘

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کے ایم سی کے پاس آمدنی حاصل کرنے کے کئی ادارے ہیں، مئیر کراچی کے اختیارات بھی کئی بار بیان کر چکے ہیں۔ اس موقعے پر سیکریٹری بلدیات نے بتایا کہ کے ایم سی کے پاس چارجڈ پارکنگ اور دوسرے ادارے ہیں۔

اس پر عدالتی بنچ کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اس سے تو ملازمین کی تنخواہ بھی نہیں نکلتیں۔

اس موقع پر میئر کراچی وسیم اختر نے عدالت میں کہا کہ سندھ حکومت کو متنازع معاملات پر میٹنگ کا حکم دیا تھا، متعدد یاد دہانی کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ میئر کراچی وسیم اختر نے اختیارات کی عدم دستیابی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں سات ارب روپے ملتے ہیں جن میں سے نصف تنخواہوں اور پینشن کی مد میں چلے جاتے ہیں۔

عدالت نے میئر کراچی سے سوال کیا کہ ’آپ نے سڑکیں بنائی ہیں؟ کہاں سڑک بنائی ہے؟‘ اس پر وسیم اختر نے جواب دیا کہ ناظم آباد میں چھوٹی گلیوں کی سڑکیں بنائی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ناظم آباد میں کوئی چھوٹی گلیاں نہیں ہیں، ریکارڈ پیش کریں، کتنی سڑکیں بنائی ہیں؟‘

’ریلوے کی زمین پر بنے پلازے ایک ہفتے میں گرائیں‘

ریلوے

صوبائی حکومت رواں سال ستمبر سے تعمیراتی کام کے آغاز کا ارادہ رکھتی ہے

سپریم کورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے کیس میں کمشنر کراچی کو حکم دیا ہے کہ ریلوے کی زمین پر بنے پلازے ایک ہفتے میں گرائیں۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سرکلر ریلوے اور لوکل ٹرین کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کے سلسلے میں سیکریٹری ریلوے، کمشنر کراچی، میئر کراچی اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر عدالت میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے پانچ ستمبر 2019 کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ سرکلر اور لوکل ٹرین کی بحالی سے متعلق حکم پر عمل درآمد ہوا کے نہیں؟

عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری ریلوے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے سامنے بابو کی طرح بات نہ کریں یہ بتائیں کہ سرکلر ریلوے کیوں نہیں چلی؟‘

سیکریٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ اس ’منصوبے کی راہ میں حکومت سندھ رکاوٹ ہے‘۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ’سیکریٹری غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں‘۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’ریلوے نے زمین سے ناجائز تجاویزات ختم کر کے زمین حکومت سندھ کے حوالے کرنی تھی، ہم فریم ورک مکمل کر کے تین بار وفاقی حکومت کو بھیج چکے ہیں، اب یہ منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوے میں شامل کر دیا گیا ہے۔ تاخیر کی ذمہ دار وفاقی وزارت ریلوے ہے۔‘

چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ’آپ لوگ ذمہ داری پوری نہیں کرنا چاہتے، آپ آج کچھ کہہ رہے ہیں، کل کچھ اور کہیں گے، آپ کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہے اور یہ سب کام سیاسی مصلحت کی وجہ سے نہیں کر رہے۔‘

اس موقع پر سرکلر ریلوے کے متاثرین کے وکیل بیرسٹر فیصل صدیقی نے کہا کہ ’امیروں کی عمارتیں نہیں گرائی گئی ہیں، صرف غریبوں کو بے گھر کر دیا، 6500 لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا ہے، بڑے بڑے پلازے نہیں گرائے جارہے‘۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’نہیں گرائیں گے، ان کا مفاد ہی اس میں ہے، جائیں ابھی جا کر بلڈوز کر دیں، سب غیر قانونی عمارتیں، ریلوے لینڈ پر بڑی بڑی عمارتیں بن گئی ہیں، جا کر گرائیں ،ایک ہفتے میں گرائیں، ہم حکم دیں گے۔‘

عدالت کے ریمارکس پر کمشنر کراچی نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع دے رکھا ہے، اس پر عدالت نے کمشنر سے مکالمہ کیا کہ ’آپ جاکر گرائیں، کہیں سپریم کورٹ کا آرڈر ہے‘۔

اس موقع پر عدالت کے باہر سرکلر ریلوے کے متاثرین اور بحریہ ٹاؤن کراچی کے الاٹیز نے بھی احتجاج کیا، بحریہ ٹاؤن کے الاٹیز کا کہنا تھا کہ ’ملک ریاض نے ہمیں سہانے سپنے دکھا کر پھنسایا ہے، 35 فیصد ڈویلپمنٹ چارجز غیر قانونی ہیں، عدالتی احکامات کے باوجود رقم واپس نہیں کی جارہی ہے‘۔

چیف جسٹس کے احکامات پر عدالتی عملے نے متاثرین سے درخواستیں وصول کیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32568 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp