عمران خان شہر نا پرساں کے بادشاہ


پاکستان میں جب کسی حکومت کو برطرف کیا جاتا ہے یا کسی وزیر، مشیر اور گورنر کو اپنے منصب سے ہٹایا جاتا ہے تو اس پر کرپشن کا الزام لگا دیا جاتا ہے اور برطرفی اور سبکدوشی کا یہ بیا نیہ 1947 ء سے چلا آرہا ہے۔ پی ٹی آئی کی اس دفعہ جن وزراء سے وزارتیں واپس لے لی گئی ہیں، ان پر مذکورہ بیانیے سے ہٹ کر انتشار کا الزام لگایا گیا ہے اور پھر سوشل میڈیا پر پی ٹی ٓائی کے ٹائیگرز اور مخلص کارکنوں نے اس فیصلہ پر جن تحفظات کا اظہار کیا ہے اور برطرف وزراء جو بیانات دے رہے ہیں، اس سے صاف نظر آرہا ہے کہ ان وزراء نے صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کے گورننس اور حکومت چلانے پر کچھ اعتراضات کیے تھے اور ان تحفظات اور اعتراضات کی گرہیں کچھ دنوں میں کھلنے والی تھیں لیکن گرہیں کھلوانے سے پہلے چیف ایگزیکٹیو کے وزیراعظم سے ایک ملاقات نے ان کو خاموش کردیا۔ اپنے اس اقدام پر صوبائی وزیراعلیٰ کی واضح وجہ بیان نہ کرنے کی وجہ سے بقول پروین شاکراس قسم کی صورتحال بن رہی ہے

میں سچ بولوں گی تو ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

اس سلسلے میں مجھے خالق داد امید کا بیس سال پہلے روزنامہ ’مشرق‘ میں شہرنا پرساں کے نام سے ایک مضمون بہت یاد آرہا ہے اس لیے کہ وہ اس واقعے پر بہت صادق آ رہا ہے۔ مضمون میں ایک قصے کا ذکر کیا گیا تھا کہ ایک شاگرد اور استاد ایک بادشاہی میں سیر کے لیے گیے تھے۔ اس بادشاہی میں ایک عجیب و غریب قسم کا کاروباری نظام رائج تھا۔ وہ یہ کہ سب چیزوں کا ایک بھاؤ تھا۔ یعنی ایک تولہ سونا اور ایک کلو ٹماٹر کی قیمت ایک ہی تھی۔ استاد نے جب یہ دیکھا تو شاگرد سے کہا کہ یہ بہت خطرناک جگہ ہے، جتنا جلد ممکن ہو یہاں سے چلا جانا چاہیے۔ چونکہ شاگرد علم اور تجربے میں استاد سے کم تھا، اس لئے اسے وہ جگہ بہت اچھی اور مفید لگی۔ وہ وہاں رہ گیا اور استاد چلا گیا۔

اس بادشاہی میں رات کو ایک چور چوری کرنے کے دوران کسی گھر کی دیوار گرنے سے زخمی ہوا تھا۔ صبح اس نے بادشاہ کے دربار میں درخواست دائر کی کہ فلاں شخص کے گھر سے چوری کے دوران اس کی دیوار گرنے سے میں زخمی ہوا ہوں، اس لیے اس شخص کو سزا دی جائے۔ چونکہ پرانے زمانے میں بادشاہوں کے دربار جب لگتے تھے تو بہت سے لوگ تماشا دیکھنے بھی آجا تے تھے۔ شاگرد بھی یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ بادشاہ سلامت نے اس شخص کو جس کے گھر کی دیوار گر گئی تھی، کو حاضر ہونے کا حکم جاری کیا۔

دربار میں حاضر ہوکر شخص نے بادشاہ کو بتایا کہ بادشاہ سلامت! ہمیں پتہ ہے کہ اس بادشاہت میں چور اور لٹیرے محترم ہیں اور اس وجہ سے ہم ہر کام میں چوروں اور لٹیروں کے تحفظ کاخاص خیال رکھتے ہیں لیکن یہ دیواربنانے میں مستری نے کچھ تکنیکی غلطی کرکے کمزور بنا دیا ہے جس سے وہ گری تو چور زخمی ہوگیا۔ بادشاہ نے مستری کو بلایا۔ مستری نے بادشاہ کو جواب دیا کہ میں تو علاقے کا تکنیکی لحاظ سب سے بہتر مستری ہوں اور اپنی حتی الوسع کوشش کرتا ہوں کہ ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس سے کسی کو نقصان پہنچے۔

دیوار کمزور بنانے میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ غلطی گارا بنانے والا مزدور سے ہوئی ہے۔ اس نے غلطی سے گارے میں زیادہ پانی ڈالا ہے جس سے دیوار کمزور بن گئی۔ بادشاہ نے مزدور سے پوچھنے کا پروانہ جاری کیا۔ مزدور ڈر کے مارے کانپتا ہوا دربار میں پہنچ گیا۔ بادشاہ نے گھمنڈ اور غرور کے انداز میں مزدور کو مخاطب کیا کہ ایک معمولی مزدور کی یہ جرأت کہ وہ ہماری بادشاہی میں چور کو نقصان پہنچائے۔ تمہیں اس کی سزا ضرور ملے گی۔

مزدور نے سہمے ہوئے دھیمی اواز میں بتایا کہ میں تو اپنے کام کا بہت پکا ہوں لیکن گارے میں پانی ڈالتے وقت ایک سانڈ تیزی سے دوڑتا ہوا میری طرف آرہا تھا اس کے خوف سے مجھ سے پانی زیادہ ہو گیا۔ بادشاہ سلامت چور کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار میں نہیں سانڈ کا مالک ہے۔ مالک کو حاضر کیا گیا۔

مالک نے اپنے دفاع میں کہا کہ یہ سانڈ مجھے بہت پسند ہے اس کے لیے میں نے گاؤں کے سنار سے کئی جرس ملا کر کا ایک ہار بنوایا ہے۔ جس نے جرسوں میں حساب سے زیادہ دانے ڈال دیے ہیں۔ جب بھی سانڈ سر ہلاتا ہے تو وہ جرس کے زیادہ شور کی وجہ سے ڈر جاتا ہے اور اکثر زور سے رسی توڑ کر باہر دوڑنے لگتا ہے۔ بادشاہ نے اطمینان کا ایک لمبا سانس لینے کے بعد کہا کہ اب میں سمجھ گیا۔ سنار قصوروار ہے۔

سنار کو جب عدالت میں لایا گیا اور اس سے کوئی بہانہ نہ بن پایا تو بادشاہ نے فیصلہ سنا دیا کہ سنار کو پھانسی دی جائے۔ چونکہ سنار زیادہ پھونکیں مارتا ہے اوراس کی گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں، اس لئے گردن موٹی ہونے کی وجہ سے پھانسی کا پھندا سنار پر فٹ نہیں آ رہا تھا۔ جلاد نے بہت زیادہ کوشش کی لیکن وہ پھندے کو سنار کی گردن میں نہیں ڈال سکا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس تمام مجمعے میں پھندا جس پر فٹ ہوجائے، اس کو پھانسی دی جائے۔

چنانچہ پھندا بدنصیب شاگرد پر فٹ ہوگیا اور اس طرح چور کی درخواست پر ایک معصوم اور سیر کے لیے آئے ہوئے مسافر کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

خان صاحب نے شہر ناپرساں کے بادشاہ کی طرح تین وزراء کو بغیر پوچھے برطرف کیے۔ پی ٹی آئی کے تمام وزراء اور عہدیداران کو خان صاحب کی کیمسٹری سمجھنی چاہیے۔ وہ اکثر اس قسم کے ایشوز کی تلاش میں رہتے ہیں، ایشو ملنے پر وہ پروڈنس کے بجائے سٹک کا استعمال زیادہ پسند کرتے ہیں۔

ان میں دو وزراء عاطف خان اور شہرام ترکئی بہت چمک والے ہیں اور پشاور کے بعد دو اہم اضلاع مردان اور صوابی کی تمام سیاسی، انتظامی اور معاشی سرگرمیاں چلاتے ہیں۔ شاید اپنے سرمائے اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر کچھ اونچی پرواز کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔

چونکہ پاکستانی سیاست میں چمک والوں کا کردار بہت اہم ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کو اس قسم کے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وجہ سے پارٹیاں ان لوگوں کو کمپنسیٹ بھی کرتی ہیں، اس لیے ان وزراء کو مستقل بنیادوں پر نظر انداز کرنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔

تیسرے وزیر شکیل خان جن کو برطرف کیا گیا ہے، وہ تو بالکل شاگرد کی طرح بغیر کسی گناہ کے گناہگار ٹھہرایا گیا ہے۔ کیونکہ ان کی برطرفی کے دوسرے روز انہوں نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ میں تو صرف ڈنر کے لیے گیا تھا، میں نہ وزیر اعلیٰ کے خلاف ہوں اور نہ ہی پارٹی کے۔ اوربرطرفی کے بعد وہ عمران خان کے وژن کا وفادار سپاہی بن کے پھر رہے ہیں اورباربار سوشل میڈیا اور اخبارات میں تواتر کے ساتھ یہ اعلان بھی کرتے رہتے ہیں کہ میں عمران خان کے وژن کی تکمیل کے لیے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہوں۔

پی ٹی آئی کا موقف بدلنے کی رفتار دوسری سیاسی پارٹیوں سے نسبتاً زیادہ ہے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب ان چمک والے اور عمران خان کے وژن کے وفادار سپاہی کے مستقبل کے متعلق کیا لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments