جب پاکستان کے دارالحکومت میں ایک بھی سینما گھر نہیں تھا!


ہندوستان ارغوانی جتھوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ کشمیری کئی ماہ سے اور اب ہندوستانی مسلمان بھی جناح کو یاد کرتے ہیں۔

اسے اتفاق کہئے یا کہ قدرت کی ستم ظریفی، آج کا ہندوستان اسی تاریک گلی میں جا چکا ہے کہ جس سے گزرتے ہوئے چالیس سال قبل ہم نے تباہی کے گڑھے کو چنا تھا۔ اپنی غلطیوں کی مگر ہم نے بھاری قیمت چکائی ہے۔ انتہا پسندی سے پھوٹنے والی دہشت گردی کی گہری اندھی کھائی سے باہر نکلنے کے لئے ہماری ایک نسل نے خون کا خراج ادا کیا تواب جا کرکہیں کناروں پر اجالا نظرآتا ہے۔ درست سمت اگر متعین ہو جائے تو منزل ایک نہ ایک دن مل ہی جاتی ہے۔ مودی کا ہندوستان مگر اب تباہی کے راستے پر ہے۔

نوے کی دہائی کے کسی سال، ایک معروف خاتون صحافی نے ’انڈیا ٹوڈے‘ میں پاکستان یاترا کے بعد لکھا تھاکہ پاکستان ملک نہیں، انتہا پسندوں کا معاشرہ ہے۔ اقلیتوں پرظلم ڈھانے والے ہمہ وقت تشدد پر آمادہ لوگ۔ جہاں جہادی تنظیمیں سرِ عام چندہ جمع کرتی ہیں۔ محلوں میں، بازاروں میں جہادی لشکروں کے ناموں سے بھرے جانے والے ڈبے، نا معلوم لوگ آتے اور خالی کر کے لے جاتے ہیں۔ اسی مضمون میں بھارتی خاتون نے جھرجھری بھرتے ہوئے پوچھا تھا، ’یہ کیسا ملک ہے کہ جس کے دارالحکومت میں ایک بھی سینما گھر نہیں! ‘ کم وبیش بیس پچیس سال گزر گئے، مضمون نگار کا نام تو مجھے یاد نہیں رہا مگر آخری فقرہ میرے دماغ کے اندر آج بھی چپکا ہے۔

اسی کی دہائی طلوع ہوئی تو مجھے بھی لاہور کے گورنمنٹ سائینس کالج میں طالب علموں کی مذہبی تنظیم سے واسطہ پڑا تھا۔ زعم پارسائی میں مبتلا مذہب کے ان ٹھیکیداروں سے میری بیزاری کا جو نقطہ آغازبنا۔ پھر وہ دن بھی دیکھنے کو ملے کہ جب اکثر والدین راتیں آنکھوں میں کرتے کہ مبادا جہادی گروہ ان کے نوجوان بیٹوں کو ورغلا کر نہ لے جائیں۔ لاہور میں جس جگہ ہمارا گھر ہے چند عشروں قبل دو متحارب مذہبی فرقے باقاعدہ قلعہ بند ہو کر لڑتے تھے۔ آتش دہن مذہبی رہنما جدید ہتھیاروں سے لیس جتھوں کے جلو میں دندناتے پھرتے۔ عشروں تک ہماری گلیوں اور بازاروں میں موت ناچتی رہی۔ بہت دیر سے سہی مگر اکیسویں صدی کے پہلے سال ریاست نے انگڑائی لی تو الحمدللہ، قدرت نے قبائلی علاقوں میں تاریکی کی قوتوں سے نبردآزما ہونے کا موقع مجھے بھی عطا کیا۔

دور دراز سرحدی ویرانوں اور شہروں کے عین بیچ میں دہشت گردوں کے بے چہرہ عفریت سے لڑتے بھڑتے ہمارے سجیلے جوان جانیں دے رہے تھے تو سکولوں، عبادت گاہوں اور عوامی مقامات پر معصوم شہری خون میں نہلا تے رزق خاک ہوتے رہتے۔ اس دوران کئی ایک اندرونی اور بیرونی عوامل تھے کہ پاکستان دوراہے پر کھڑا صحیح سمت ایک قدم اٹھاتا تو دو قدم پیچھے ہٹتا۔ وہ جو تاریخ کا ادراک رکھتے ہیں حالات کے اس جبر کے پیچھے کارفرما عوامل سے آگاہ ہیں۔ الاّ، وہ کہ جن کے پیٹ یا تو نفرت کی آگ سے بھرے پڑے ہیں یا پھروہ کہ جن کے دل سرحد پار دھڑکتے ہیں۔

اب جبکہ سرِبازار موت بانٹنے والے درندے اپنے انجام کو پہنچے اورانتہا پسندی کا درس دینے والے بھی سمٹے پڑے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں، سرمد کھوسٹ کی ’زندگی تماشا ‘ نے یاد دلایاکہ تاریکی اب بھی پوری طرح سے چھٹی نہیں۔ جسنڈا آرڈن نیوزی لینڈ میں مسجدپر حملے کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو قوم خاتون وزیراعظم کی بلائیں لیتے نہیں تھکتی۔ خود کے روّیوں کو جسنڈا کے قالب میں ڈالنے کو لیکن ابھی بہت ریاضت باقی ہے۔ اس سب کے باوجود مگر یہ کہنا بے جا نہیں کہ تا ریکی کے کونوں سے روشنی پھوٹ رہی ہے۔ اب قائدِ اعظم کے پاکستان کی بات صرف پاکستان میں نہیں ہندوستان میں بھی ہو رہی ہے۔ پاکستان تیزی سے بدل رہا ہے مگر بھارت تو کب کا بدل چکا۔ گاندھی جی کے ہندوستان پر ’گوڈسے‘ کی اولاد حکمران ہے۔

میں ان چند پاکستانی فوجی افسروں میں سے ہوں کہ جنہیں بھارتی فوج کے ساتھ بہت قریب سے کام کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ میں بھارتیوں کے عمومی رویوں، عادات اور مزاج سے قدرے واقف ہوں۔ پچھلے سال فروری میں، میں نے سوشل میڈیا پر معمول سے کچھ زیادہ وقت بھی صرف کیا کہ جس کے نتیجے میں مجھے بھارتیوں اور بالخصوص حالیہ عشروں میں جوان ہونے والی نسل کو بھی کچھ سمجھنے کا موقع ملا۔

صدیوں کی غلامی، غربت اور ذلت کے بعد حال ہی میں دستیاب مالی آسودگی میں پلنے بڑھنے والی متوسط طبقے سے وابستہ بھارتی نسل اسی خمار و تکبر میں مبتلا ہے جو ہمارے مشرقی معاشروں میں نو دولتیوں سے وابستہ ہے۔ کم و بیش چار سو آگ اگلتے ٹی وی چینلز نے بھارتیوں بالخصوص شہروں میں آباد نوجوانوں کے ذہنوں میں ’قومی تکبر‘ کا یہ تصورراسخ کر دیا ہے کہ بھارت ایک ایسی سپر پاور ہے کہ جس کا معاملہ اب پاکستان نہیں بلکہ امریکہ، روس، فرانس اور چین سے ہے۔ ایسے بھارتیوں کی اکثریت پاکستان کومحض ایک ایسے پسماندہ جہادی ملک کی حیثیت سے دیکھتی ہے کہ جو بھارت کو ترقی سے روکنے کے لئے بھارت اور بالخصوص بھارتی قبضے والے کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی کی پشت پناہی کا ذمہ دار ہے۔ چنانچہ بھارتیوں کی اکثریت مودی سرکار کی حمایت کرتی ہے، اس امید کے ساتھ کہ ایک دن بھارت سرکار پاکستان کو ضرور ’سجا‘ (سزا) دے گی۔

لگ بھگ 33 کروڑ بھارتی ٹویٹر کا استعمال کرتے جن میں سے اکثریت پاکستان کے خلاف زہر اگلتی ہے۔ چار سو بلین ڈالرزسے زائد ریزرو پر اتراتی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بھارتیوں کی تعداددنیا کے کئی ملکوں کی کل آبادی سے بھی بڑھ کر ہے۔ چنانچہ گوگل سرچ انجن بھارتیوں کا سودا بیچتا ہے اور دنیا اسے بخوشی خریدتی ہے۔ اس سب کے باوجود کشمیر اور بھارتی مسلمانوں سے متعلق حالیہ قانون سازی کے ہنگام، ہر گزرتے دن ہندوستان کے چہرے سے نقاب اتر رہا ہے۔

فوراً سے پیشتر مشتعل ہونے کا مزاج رکھنے والے بھارتیوں میں جھنجلاہٹ، چڑچڑا پن اور مایوسی کی سی کیفیت میں اضافہ ہو رہا ہے کہ کشمیر پر لا محدود مدت کے لئے قبضہ اب بھارت کے بس کی بات نہیں۔ بے کسوں اور بے گناہوں کا خون سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اپنی آزادی کے لئے کشمیریوں کو اب کسی بیرونی جہادی امداد کی ضرورت نہیں۔ خوش قسمتی سے اس باب میں سول و فوجی قیادت کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔ حکومت اپنے اداروں کو نیچا دکھانے کے درپے نہیں اور ادارے منتخب حکومت کی پشت پر کھڑے نظر آتے ہیں۔

پینتیس چالیس سال قبل خاتون صحافی نے لکھا تھا کہ پاکستان ملک نہیں انتہا پسندوں کا معاشرہ ہے۔ آج پاکستان تو جہاں کھڑا ہے سو کھڑا ہے، مودی کا بھارت مگر ’ارناب گوسوامیوں‘ کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ جس کی فوج بی جے پی کی زبان بولتی ہے۔ بالی ووڈ جو دنیا میں خوابوں کا سب سے بڑا سوداگر ہے، آج کل ہزاروں سال کی غربت کے بعد پہلی بار دستیاب ہو جانے والی آسودگی کے نشے میں دھت بھارتیوں کو ’گھس کر مارنے‘ کے خواب بیچتا ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت میں تو جیسے تیسے کچھ سینما گھر نمودار ہو ہی گئے۔ خاتون صحافی کا نام یاد آئے تو اطلاع دوں کہ دلّی کے سینکڑوں کے سامنے چند ہی سہی، مگر فلم بینوں کے سینوں میں ہیجان نہیں بھرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments