کیا نواز شریف ثواب سمجھ کر خود کو اذیت پہنچاتے ہیں؟


مسیحی راہبوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو خود کو اذیت پہنچاتا ہے تاکہ یسوع مسیح کے دکھ درد کا کچھ حصہ اسے ملے اور اسے مکتی ملے۔ ڈان براؤن کے بیسٹ سیلر ناول ”ڈاونچی کوڈ“ میں ولین ایک ایسے ہی مسیحی طبقے ”اوپس ڈے“ کا ممبر بتایا گیا تھا جو خود کو کوڑے مار کر اور ران پر خاردار زنجیر پہن کر خون نکالتا تھا تاکہ جسمانی خواہشوں اور اور گناہوں سے نجات ملے اور وہ مکتی پائے۔

نواز شریف کا فلسفہ بھی ایسا سا ہی ہے۔ وہ خود کو ایذا پہنچانے کا خود بندوبست کرتے ہیں۔ اب یہ دیکھ لیں کہ عمران خان کی کیسی بڑھ چڑھ کر حمایت کی۔ شوکت خانم کے لئے کیسے زمین دی۔ کیسے عمران خان کو سیاست میں لانے کی کوشش کرتے رہے۔ پھر جب عمران خان سیاست میں آ گئے تو وہی نواز شریف کو سب سے زیادہ مشکل میں ڈالنے کا سبب بنے۔

یا پھر نیب کو دیکھ لیں۔ اس کا پیشرو ادارہ احتساب بیورو نواز شریف نے ہی بنایا تھا۔ جب اسے مزید ترقی دیتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے نیب بنایا تو بہت سیاست دان پھنسے۔ پھر جنرل مشرف کے رخصت ہونے پر آصف زرداری نے بہت کوشش کی کہ نیب کے قانون سے چھٹکارا پایا جائے مگر نواز شریف نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ نیب نے ہی نواز شریف اور ان کے خاندان کو تکلیف پہنچائی اور وہ سب سے زیادہ برے پھنسے۔

نیب ہی کے معاملے میں ہم نے دیکھا کہ نواز شریف نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو اس کا سربراہ بنوایا۔ جاوید اقبال اس سے پہلے پرویز مشرف کے ہاتھوں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی کے مقدمے میں اپنی استقامت اور رجحان دکھا چکے تھے۔ اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد انکوائری کمیشن میں بھِی وہ ثابت کر چکے تھے کہ حق کی حمایت کا معاملہ ہو تو وہ ہرگز بھی غلط فیصلہ نہیں دیتے اور عواقب کی پروا کیے بغیر تاریخ ساز فیصلہ لکھ جاتے ہیں۔ ان کے اس ٹریک ریکارڈ کے باوجود کسی کے کہنے سننے میں آ کر نواز شریف نے انہیں چیئرمین نیب بنوا دیا اور پھر سرتاپا اذیت اٹھائی۔

جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھی سب نے دیکھا کہ آصف زرداری کا موقف درست تھا۔ جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ نے وہ طاقت پکڑی کہ معمولی معاملات پر وزرائے اعظم کو چند منٹ کی سزا دے کر معزول کرنے پر قادر ہوئی۔ یوں باسٹھ تریسٹھ کے شکنجے میں پھنس کر نواز شریف خود بھی معزول ہوئے اور مصائب میں مبتلا ہوئے۔

اساطیری چیف جسٹس ثاقب نثار کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی گزرا۔ نواز شریف نے انہیں اپنا احسان مند سمجھ کر سپریم کورٹ بھیجا۔ جسٹس ثاقب نثار نے اس مبینہ احسان کا بدلہ تو خاک اتارنا تھا، نواز شریف کو ہی اتار دیا۔ بہرحال نواز شریف خوش قسمت ہیں، ورنہ جسٹس ثاقب نثار اساطیری روایات کی پیروی کرتے ہوئے انہیں اتارنے کی بجائے چڑھا بھی سکتے تھے اور پھر گڑھی خدا بخش کی طرح رائے ونڈ میں بھی مزار بنتا لیکن لوح مزار پر لکھا ہوتا

برمزارِ ما غریباں، نے چراغے نے گُلے
نے پرِ پروانہ سوزد، نے صدائے بلبلے
(مجھ غریب کے مزار پر نہ چراغ جلتا ہے نہ گل کھلتا ہے، نہ پروانہ اپنے پر جلاتا ہے اور نہ ہی بلبل کی کوئی صدا گونجتی ہے )

ہم جنرل آصف نواز، جنرل وحید کاکڑ، جنرل پرویز مشرف، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر باجوہ وغیرہ کا ذکر نہیں کرتے جن کا درجن بھر جرنیلوں میں سے نواز شریف نے بہت احتیاط سے انتخاب کیا تھا چونکہ ہم اوپس ڈے کے فکر و فلسفے سے متاثر نہیں ہیں۔

گمان ہونے لگا ہے کہ نواز شریف ثواب سمجھ کر خود کو ایذا پہنچاتے ہیں، ورنہ فیصلہ سازی اور مردم شناسی میں پے در پے ایسی غلطیاں ایک جہاندیدہ اور تجربہ کار سیاست دان کیسے کر سکتا ہے؟ آج کل نواز شریف فارغ ہیں تو ڈاونچی کوڈ ہی پڑھ لیں۔ کتاب تو نہایت گمراہ کن ہے لیکن اوپس ڈے کے ذکر سے شاید نواز شریف کو تسلی ہو کہ وہ بھی خود کو ایذا پہنچا پہنچا کر مکتی پانے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments