یالٹا کانفرنس: دوسری عالمی جنگ کے بعد فاتح ممالک کی سربراہی کانفرنس نے دنیا کو نئی جہت دی


یالٹا ایگریمنٹ یا معاہدہ یالٹا روس امریکہ برطانیہ دوسری عالمی جنگ

تین بڑے عالی رہنما – جوزف سٹالِن، فرینکلن روزویلٹ اور ونسٹن چرچل

فروری سنہ 1945 میں دنیا کے اس وقت کے تین بڑے رہنماؤں کی ایک تفریحی ساحلی مقام پر ملاقات ہوئی جس میں دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا گیا۔

اس وقت تک نازی جرمنی بری طرح تباہ ہو چکا تھا۔ سوویت فوجیوں کی برلن کی جانب پیش قدمی جاری تھی، جبکہ اتحادی فوج جرمنی کی مغربی سرحد عبور کر چکی تھی۔ ادھر بحرالکاہل میں امریکی فوجی ایک مستحکم مگر خونریز جنگ لڑتے ہوئے جاپان کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔

جب ان ممالک کی افواج کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بالکُل قریب پہنچ چکی تھیں، اس وقت دنیا کے تین بڑے کہلانے والے عالمی رہنماؤں، امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ، برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل اور سوویت رہنما جوزف سٹالن نے بحیرہِ اسود کے ساحل پر سوویت یونین میں واقع تفریحی شہر یالٹا میں ملاقات کرنے پر اتفاقِ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

’ڈیئر پوتن، ہٹلر اور سٹالن نے دوسری جنگ عظیم کا آغاز کیا‘

جرمنی: دیوارِ برلن کا انہدام کیسے ممکن ہوا؟

نیٹو کیا ہے، کب بنا اور اب اس اتحاد کا مستقبل کیا ہے؟

تاریخِ عالم میں 75 برس پہلے سب سے زیادہ خونریز تصادم کے انجام کے موقعے پر اتحادی طاقتوں کی کوشش تھی کہ دنیا آئندہ کبھی اس طرح کی تباہی سے نہ دیکھے۔

تاہم اس وقت امریکہ اور سوویت یونین دونوں ہی اپنی اپنی شرائط کی بنیاد پر تعاون کرنے پر تیار تھے۔ اسی لیے یالٹا کے معاہدے کے چند ماہ بعد ہی اس سرد جنگ کی بنیاد پڑ گئی جس نے دنیا کو اگلے کئی عشروں کے لیے دو مختلف نظریاتی دھڑوں میں تقسیم کر دیا۔

امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو بیساوچ کے بقول ’اگر یالٹا کانفرنس کا مقصد عالمی جنگ کے بعد واقعی ایک پرامن دنیا کا قیام تھا، تو یہ کانفرنس اس مقصد میں ناکام رہی، لیکن امریکہ اور سوویت یونین کے عزائم میں تضاد کو دیکھیں تو لگتا ہے یہ مقصد کبھی بھی پورا نہیں ہونا تھا۔

فروری سنہ 1945 میں ہو کیا رہا تھا؟

سنہ 1945 کے شروع ہونے تک نازی جرمنی جنگ ہار چکا تھا۔ اگرچہ اس وقت تک جرمنی ایک خونی مزاحمت جاری رکھے ہوئے تھا لیکن کسی کو یہ شک نہیں تھا کہ آخرکار جنگ کا انجام کیا ہوگا۔

مشرقی یورپ میں چار سال کی خوفناک جنگ میں سوویت یونین جرمنی کی فوجوں کو تباہ و برباد کر کے جنگ کا پانسہ پلٹ چکا تھا۔

لیکن اس حقیقت کے باوجود کے جرمن فوج کی تین چوتھائی اموات مشرقی محاذ پر ہوئیں اور سوویت یونین عسکری طور پر اپنی فتح ثابت کر چکا تھا، خود سوویت یونین کا حال بھی بہت برا ہو چکا تھا۔

سنہ 1943 میں جرمن فوج پر سوویت یونین کا ایک بڑا حملہ

تین سال کی تباہ کن جنگ میں سوویت فوجیں جرمن فوجوں کو پیچھے دھکیلتی ہوئی برلن کے قریب پہنچ گئی تھیں

اندازے کے مطابق اس جنگ میں کل 27 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے تھے جن میں سے ہر سات افراد میں سے ایک سوویت شہری تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں سے دو تہائی عام شہری تھے۔ کچھ ماہرین کے خیال میں مارے جانے والے سوویت افراد کی تعداد اس سے بھی زیادہ تھی۔

اس کے علاوہ ملک کے شہر اور اس کی سب سے زیادہ زرخیز زمین بھی جنگ میں تباہ ہو چکی تھی اور فیکٹریاں، کھیت، مکان اور حتیٰ کہ سڑکیں بھی صفحہ ہستی سے مٹ چکی تھیں۔

سوویت رہنماؤں کے اہداف کیا تھے؟

جوزف سٹالن اپنے ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا تہیہ کر چکے تھے۔ چنانچہ جب وہ یالٹا پہنچے تو ان کا مقصد مشرقی یورپ میں اپنا ایک ایسا حلقہ اثر بنانا تھا جو سوویت یونین کے گرد ایک حصار کا کام کر سکے اور اسے محفوظ رکھے۔

یہ یقینی بنانے کے لیے کہ جرمنی اس کے لیے آئندہ کبھی خطرہ نہ بن سکے، سٹالن جرمنی کو تقسیم کرنا چاہتے تھے اور اس کے علاوہ وہ چاہتے تھے کہ جرمنی سے پیسے، مشینری، حتیٰ کہ افرادی قوت کی شکل میں اتنا بڑا معاوضہ وصول کیا جائے جس سے وہ سوویت یونین کی تباہ حال معیشت کو بحال کر سکیں۔

سٹالن جانتے تھے کہ یہ اہداف حاصل کرنے کے لیے انہیں مغربی طاقتوں کی رضامندی درکار ہو گی۔

پولینڈ کی بدلتی سرحدیں

ونسٹن چرچل کو سٹالن کے مقاصد کا بخوبی علم تھا۔ یالٹا کانفرنس سے پہلے دونوں رہنما اکتوبر 1944 میں ماسکو میں ایک ملاقات میں اس خیال پر بات کر چکے تھے کہ یورپ کو کیسے تقسیم کیا جائے کہ اس کا ایک حصہ سوویت یونین کے حلقہ اثر میں رہے اور دوسرا مغربی طاقتوں کے حلقہ اثر میں۔

اس کے علاوہ چرچل یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان لاکھوں سوویت فوجیوں کی تعداد اتحادی فوجوں سے کہیں زیادہ تھی جنہوں نے جرمنی کو مرکزی اور مشرقی یورپ سے پیچھے دھکیلا تھا۔ اگر سٹالن چاہتے کہ یہ سوویت فوجی ان ہی علاقوں میں بیٹھے رہیں تو برطانیہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔

جرمن فوجی وارسا میں، سنہ 1939

برطانیہ نے اعلان جنگ اس وقت کیا تھا جب جرمن فوجیں پولینڈ میں داخل ہو گئی تھیں

یالٹا کانفرنس سے بہت پہلے ستمبر 1939 میں برطانیہ نے اعلان جنگ اس لیے کیا تھا کہ جرمن فوجیں برطانیہ کے اتحادی ممالک پولینڈ میں داخل ہو گئی تھی اور تب ہی چرچل نے تہیہ کر لیا تھا کہ پولینڈ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔ تاہم برطانیہ کو بھی جنگ میں فتح کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی اور اب وہ بھی تقریباً دیوالیہ ہو چکا تھا۔ چرچل کو امید تھی کہ امریکہ ان کی مدد کرے گا اور سٹالن کے خلاف کھڑا ہو گا۔

لیکن دوسری جانب امریکی صدر روزویلٹ کی اپنی ہی ترجیحات تھیں۔ وہ چاہتے تھے کہ سٹالن اقوام متحدہ بنانے پر رضامند ہو جائیں جو کہ جنگ عظیم کی بعد کی دنیا میں عالمی امن قائم رکھنے کا ایک نیا ادارہ ہوگا۔

یونیورسٹی آف ورجینیا سے منسلک پروفیسر میلون لیفلر کہتے ہیں کہ روزویلٹ بخوبی جانتے تھے کہ کس طرح جنگ عظیم اوّل کے بعد اتحادی ممالک کے درمیان بے اعتباری اور تلخی کی وجہ سے امریکہ سنہ 1920 اور 1930 کے عشروں میں عالمی سیاست سے دور ہو گیا تھا۔ اس لیے ’روزویلٹ کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ امریکہ ایک مرتبہ پھر دنیا سے الگ تھلگ نہ ہو جائے۔‘

اس کے علاوہ روزویلٹ چاہتے تھے کہ سوویت یونین جاپان کے خلاف اعلان جنگ کر دے۔ اس وقت تک اگرچہ اچانک ہی جاپانی شہنشاہیت کے خلاف ایک لہر اٹھ چکی تھی، لیکن ابھی تک جاپانی فوجیں بحرالکاہل میں آگے بڑھتی ہوئی امریکی فوجوں پر تابڑ توڑ حملے کر رہی تھیں جن میں امریکہ کو خاصا جانی نقصان ہو رہا تھا۔

اس وقت امریکی حکمت عملی تشکیل دینے والوں کو یہ سوال بری طرح پریشان کر رہا تھا کہ وہ کیونکر جاپانی جزیروں پر حملہ کر کے امریکی ہلاکتوں کا بدلہ لے سکتے ہیں۔

پھر یالٹا میں ہوا کیا؟

اگرچہ صدر روزویلٹ کی خواہش تھی کہ ملاقات بحیرۂ روم کے کسی ملک میں کی جائے، لیکن چونکہ سٹالن کو ہوائی سفر سے ڈر لگتا تھا، اس لیے انہوں نے سربراہ ملاقات اپنے ہاں یالٹا میں منعقد کرانے کی پیشکش کر دی۔

سربراہ ملاقات سے پہلے تینوں سربراہان کے معاونین کے درمیان بات چیت چار سے گیارہ فروری کے درمیان امریکی وفد کی رہائشگاہ پر ہوئی۔ لیوِدیا محل نامی یہ عمارت وہ جگہ تھی جہاں روس کے آخری شہنشاہ نکولس دوئم موسم گرما گزارا کرتے تھے۔

اس سے قبل تینوں رہنما سنہ 1943 میں تہران میں ملاقات کر چکے تھے۔ چرچل کے مقابلے میں روزویلٹ روسی رہنما پر اعتبار کرنے کو زیادہ تیار تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ چرچل سٹالن کو خطرناک سمجھتے ہیں۔

لواڈیا پیلس

وہ تاریخی محل جہاں یالٹا کانفرنس منعقد ہوئی

ایک ہفتے کے مذاکرات کے بعد دنیا کے ’تین بڑوں` نے لوگوں کے سامنے اپنے فیصلوں کا اعلان کیا۔ جرمنی غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالے گا جس کے بعد اس کے ٹکڑے کر دیے جائیں گے۔

رہنماؤں نے اس بات پر بھی اصولی اتفاق کیا کہ جن علاقوں پر اتحادیوں کا قبضہ ہے انہیں چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن پر برطانیہ، امریکہ،روس اور فرانس کا اختیار ہوگا۔ اسی طری برلن کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

اس اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ جرمنی زیادہ سے زیادہ ہرجانہ ادا کرے گا اور اس حوالے سے ماسکو میں ایک مشن تشکیل دیا جائے گا جو طے کرے گا کہ جرمنی کے ذمے کتنی رقم واجب الادا ہے۔

اس کے علاوہ تینوں رہنماؤں نے ان تمام یورپی ممالک میں جمہوری انتخابات کرانے پر بھی اتفاق کیا جو جنگ میں آزاد کرائے گئے تھے۔ ان ممالک میں پولینڈ بھی شامل تھا جہاں ایک ایسی حکومت کا قیام ہونا تھا جس میں ’ پولینڈ کے اندر موجود تمام جمہوری رہنماؤں کے علاوہ بیرون ملک رہنے والے پولِش لوگ بھی شامل ہوں گے۔‘

اس اعلان سے پہلے ہی سوویت یونین وارسا میں ایک کمیونسٹ عبوری حکومت قائم کر چکا تھا، چانچہ تینوں رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ آنے والے دنوں میں اس حکومت کو توسیع دی جائے گا۔

لیکن سٹالن کے ذہن میں جمہوریت کا مطلب بہت مختلف تھا۔ اگرچہ دنیا کے سامنے انہوں نے یورپ میں آزادنہ انتخابات پر اتفاق کیا لیکن سٹالن کی فوجوں نے پہلے سے ہی مرکزی اور مشرقی یورپ میں سرکاری دفاتر کو قابو کر کے انہیں مقامی کمیونسٹ پارٹیوں کے حوالے کرنا شروع کر دیا تھا۔

دیگر فیصلوں کے علاوہ، سٹالن کے اصرار پر تین بڑے رہنماؤں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ پولینڈ کی سرحدوں کو مغرب کی جانب بڑھا کر اس کا کچھ حصہ سوویت یونین کو دیا جائے گا۔ یوں بالٹک ریاستیں بھی سوویت یونین میں شامل ہو جائیں گی۔

’اب آپ برطانوی علاقے سے باہر جا رہے ہیں‘

سنہ 1989 تک برلن شہر دو حصوں میں تقسیم رہا

معروف تاریخ دان این ایپل بام اپنی تصنیف ’آئرن کرٹن‘ یا ’آہنی پردہ‘ میں لکھتی ہیں کہ تینوں رہنماؤں نے ’ کمال بے پرواہی سے یورپ کے تمام علاقوں کی قسمت کا فیصلہ سنا دیا تھا۔‘

ان کے بقول روزویلٹ نے ’نیم دلی کے ساتھ‘ سٹالن سے یہ تو کہہ دیا تھا کہ وہ لواو کے شہر کو پولینڈ کا حصہ رہنے دیں، لیکن انہوں نے اس مطالبے پر زور نہیں دیا اور جلد ہی اس سے دستبردار بھی ہو گئے۔

روزویلٹ کی توجہ اقوام متحدہ کے قیام پر مرکوز تھی اور انہوں نے یہ مقصد حاصل کر لیا تھا۔ چنانچہ تینوں ممالک نے اتفاق کیا کہ 25 اپریل سنہ 1945 کو تینوں ملکوں کے وفود سان فرانسِسکو میں جمع ہوں گے اور اس نئی بین الاقوامی تنظیم کے قیام کو عملی شکل دیںے کی کوشش کریں گے۔

نہ صرف یہ، بلکہ یالٹا کی سربراہ ملاقات میں سٹالن نے یہ وعدہ بھی کیا کہ جرمنی کی شکست کے تین ماہ بعد سوویت یونین جاپان پر چڑھائی کر دے گا۔

معاہدہ طے پا جانے کے باوجود بھی چرچل مشرقی یورپ کی صورت حال پر بہت زیادہ پریشان تھے۔ چانچہ انہوں نے اپنی افواج اور امریکیوں پر زور دیا کہ وہ جنگ ختم ہونے سے پہلے پہلے مشرق کی جانب جتنا آگے تک جا سکتے ہیں جائیں۔

اس کے بعد کیا ہوا؟

یالٹا کی سربراہ کانفرنس کے چند ماہ کے اندر اندر ہی سیاسی حالات ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گئے۔ اپریل میں روزویلٹ کو بڑا شدید برین ہیمرج ہوا اور دماغ کی شریان پھٹنے سے ان کا انتقال ہو گیا اور ان کی جگہ ہیری ٹرومین امریکہ کے صدر بن گئے۔

مئی میں جرمنی نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے، اور پھر 16 جولائی کو امریکہ نے اپنے نئے خفیہ ہتھیار، یعنی ایٹم بم کا کامیاب تجربہ بھی کر لیا۔ تجربے کے اگلے ہی دن صدر ٹرومین وزیر اعظم چرچل اور جوزف سٹالن سے ملاقات کے لیے برلن کے نواح میں واقع پوٹسڈیم پہنچ گئے۔

ابھی ٹرومین کو صدر بنے چار ماہ ہی ہوئے تھے اور وہ سٹالن کو جانتے بھی نہیں تھے۔ اور اس کانفرنس کے دوران ہی چرچل کی جگہ کلیمنٹ ایٹلی برطانیہ کے وزیر اعظم بن گئے۔

بائیں سے دائیں کلیمنٹ ایٹلی، ہیری ٹرومین اور جوزف سٹالن

بائیں سے دائیں کلیمنٹ ایٹلی، ہیری ٹرومن اور جوزف سٹالن پوٹسڈیم کے مقام پر ملے

اس کانفرنس کے موقع پر ماحول بالکل تبدیل ہو چکا تھا۔ ایٹم بم کی طاقت حاصل ہو جانے کے بعد امریکی پالیسی ساز زیادہ پر اعتماد محسوس کر رہے تھے۔

روزویلٹ کی نسبت ٹرومین کو سٹالن پر اعتبار بہت کم تھا۔ ٹرومین اور ان کے مشیروں کو یقین تھا کہ سوویت یونین کا یالٹا معاہدہے کی پاسداری کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اگلے دو برس سے کم عرصے میں، امریکی صدر نے اس منصوبے کا اعلان کر دیا جسے ’ٹرومین ڈاکٹرائن‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت امریکہ نے عہد کیا کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں سوویت یونین اپنا اثر رسوخ پھیلانے کی کوشش کرے گا، امریکہ اسے روکے گا۔ یعنی اب سرد جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔

بعد کے عرصے میں چرچل اور روزویلٹ، دونوں پر تنقید کی جاتی رہی کہ انہوں نے یالٹا میں سٹالن کی زیادہ باتیں مان لی تھیں، لیکن اب عملی طور امریکہ اور برطانیہ اس حوالے سے کچھ زیادہ نہیں کر سکتے تھے۔

سٹالن کے پاس پہلے ہی پورے مرکزی اور مشرقی یورپ میں فوجیں موجود تھیں۔ یالٹا کے بعد چرچل نے سوویت یونین کے خلاف ممکنہ حملے کی منصوبہ بندی کے لیے ایک کمیشن بھی بنایا۔

اسے اب ’آپریشن ان تھنک ایبل‘ یا وہ منصوبہ ’جس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ برطانیہ کے عسکری منصوبہ سازوں کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ بالکل ناقابلِ عمل تھا۔

پروفیسر لیفلر کہتے ہیں کہ ’مشرقی یورپ کے لحاظ سے یالٹا کانفرنس میں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا تھا کہ خطے میں طاقت کی اس حقیقت کو تسلیم کر لیا گیا جو وہاں پہلے سے ہی موجود تھی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp