دو بوری عزت والا


وہ اپنی پانچ چھ بکریوں کو لیے گھومتی گھامتی گاؤں سے ذرا دور نالے تک نکل آئی تھی۔ چلتی جاتی تھی اور ہر ہر چیز کو غور سے دیکھتی جاتی تھی۔ کسی چیز کو دیکھنے میں زیادہ مگن ہوتی تو اردگرد کا دھیان ہی نہیں رہتا تھا۔ اب بھی جھاڑی میں لگے ایک جالے کو دیکھنے میں میں لگ گئی جس پہ ایک مکڑی بیٹھی تھی اور ادھر ادھر منڈلاتی مکھی کو پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مکھی قریب آتی تو مکڑی بھی آگے بڑھ کے حملے کی کوشش کرتی اور مکھی فوراًپیچھے ہو جاتی۔

کچھ دیر یہی آنکھ مچولی چلتی رہی پھر آہستہ آہستہ مکڑی جالے سے بھی باہر نکل آ ئی اور جھاڑی پہ چلتے چلتے مکھی کو پکڑنے کی کوشش کرتی رہی۔ مکھی کو اندازہ بھی نہیں ہوپایا اور مکڑی سے بچنے کی کوشش میں وہ عین جالے کے پاس آ گئی۔ مکڑی ایک دم جھپٹی تو مکھی پیچھے ہوتے ہی جالے میں پھنس گئی۔ مکھی کو پتا ہی نہیں چلا تھا کہ مکڑی اسے جان بوجھ کے جالے تک لے آئی تھی۔ وہ یہ کشمکش دیکھنے میں اتنی محو تھی کہ مکڑی کے جھپٹنے پہ ایک دم اچھل گئی۔

۔ ”اے جیجل“۔

اچانک ایک آواز نے اسے چونکا دیا۔ ان نے مڑ کے دیکھا تو چاچارحمت کھڑا تھا۔ وہ ایک دم خوش ہوگئی۔

۔ ”چاچا کیا لایا شہر سے میرے لیے؟ “

”یہ لے شہر سے رنگین کلپ لایا ہوں جیسے شہر میں تیری جیسی بچیاں لگاتی ہیں۔ دیکھ ان پہ چھوٹی چھوٹی گڈیاں بھی بنی ہیں۔ “ چاچا رحمت نے۔ کلپ اس کے ہاتھ میں پکڑا کر اسے اپنی گودمیں بٹھا لیا۔

چاچا رحمت اس کا سگا چاچا نہیں تھا مگر گاؤں کا رواج تھا کہ ہر بڑے کو چاچا ہی کہہ کر بلایا جاتا تھا۔

چاچا کہتا تھا کہ جیجل دنیا کی سب سے پیاری بچی ہے۔ وہ شہر جاتا تھا تو اپنے بچوں کے لیے کچھ لائے یا نا لائے مگر جیجل کے لیے کچھ نا کچھ ضرور لاتا تھا۔ سات سالا چھوٹی سی جیجل کو چاچا رحمت بہت پسند تھا۔ اس کے پاس جیجل کی وہ لامتناہی بے سروپا باتیں سننے کے لیے بہت وقت تھا جو کبھی اماں ابا نے نہیں سنیں۔ ابا تو سارا دن باہر ہوتا تھا۔ کچھ وقت کھیتوں میں گزار کر باقی وقت گاؤں کے ہوٹل پہ باقی مردوں کے ساتھ باتوں میں یا مرغے لڑا کے گزارتا تھا۔

اماں صبح صبح تو کھیتوں پہ کام کے لیے جاتی تھی۔ دوپہر کو واپس آ کر جو گھر کے کاموں لگتی تو ان کا اختتام مغرب کو اندھیرا پھیلنے کے بعدبھی مشکل سے ہوتا تھا۔ بس شام میں جس وقت ابا کچھ دیر کے لیے گھر آتا تھا وہ وقت اماں کے کام سے بریک کا ہوتا کیوں کہ روز کسی فریضے کہ طرح اماں ابا کسی نا کسی بات پہ لڑتے، ابا اماں کو مارتا بیچ میں ماں کو بچانے کی کوشش کرتی جیجل کے بھی ایک دو لاتیں گھونسے پڑ ہی جاتے۔ اور اماں بھی بعد میں اپنا غصہ نکالنے کے لیے بھی جیجل کوہی مارتی تھی۔ وہ دونوں تو اس جنگ کے بعد اپنے معمول کے کاموں میں لگ جاتے اور جیجل کسی کونے میں بیٹھی سسکتی رہتی۔ اماں، ابا کو تازی روٹی بنا بنا کر دیتی جاتی اور سارے دن کی روداد سناتی جاتی جو ابا ہوں ہاں کرکے سنی ان سنی کرتا رہتا۔

اب جیجل نے روز کی مار سے بچنے کا یہ حل نکالا تھا کہ اسکول سے آکر وہ یا تو محلے کے بچوں کے ساتھ گلی ڈنڈا وغیرہ کھیلنے نکل جاتی یا بکریاں لے کے گاؤں اور اس کے اردگرد کے علاقے میں چراتی پھرتی تھی۔ اتفاق ایسا ہوتا کہ چاچا رحمت بھی کہیں نا کہیں سے نکل آتا اور اپنی گود میں بٹھا کر دنیا جہان کے قصے سناتا اور اس کے سنتا۔ اسے چاچارحمت کے پاس رہنا اچھا لگتا تھا مگر جب وہ ادھر ادھر سہلاتا تھا تو بہت عجیب لگتا تھا جیسے جسم پہ کیڑے مکوڑے رینگ رہے ہوں۔

آج بھی جیجل باتوں میں لگی تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ شام سے رات ہوگئی۔ وہ جب واپسی کا سوچتی چاچا کوئی دلچسپ قصہ شروع کردیتا۔

***    ***

شام ڈھلنے لگی تو اماں کو غصہ آنے لگا۔ انہوں نے سوچ لیا کہ آج تو ہرحال میں ابا سے کہہ کر اس کو ایسا سیدھا کروائیں گی کہ پھر دوبارہ دیر کرنے کی ہمت نہیں کرے گی، باہر جانے سے روک وہ سکتی نہیں تھیں کیونکہ اگر جیجل نا جاتی تو انہیں بکریاں لے کے جانا پڑتا جس کا انہیں وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ مگر جب شام گہری ہوکر رات میں بدل گئی تو ابا اور اماں دونوں کو تشویش ہونے لگی۔ ایک تو لڑکی ذات پھر آج کل تو حالات بھی ایسے ویسے ہی تھے۔

اماں کو ہول اٹھنے لگے۔ ان کے ذہن میں بار بار دو مہینے پہلے والا واقعہ آنے لگا جب ساتھ والے اکسی گاؤں میں ایک بچے کے ساتھ غلط کام کرکے اس کا گلا دبا کے کھیتوں میں پھینک گئے تھے۔ اماں اور ابا واقعی بہت پریشان ہوگئے تھے۔ پہلے تو دونوں نے محلے کے گھروں میں پتا کیا پھر ابا ہوٹل پہ بیٹھے لوگوں سے پوچھنے گاؤں سے باہر چلاگیا۔

زیادہ تر کو تو پتا ہی نہیں تھا۔ ایک دم بشیر کو یاد آیا۔

” تو رحمت سے پوچھ کے دیکھ وہ عموما ًاسی کے ساتھ ہوتی ہے۔ “

۔ ”عموما ًساتھ ہوتی ہے کیامطلب؟ “ ابا کی پریشانی اور بڑھ گئی۔ رحمت کی شہرت اچھی نہیں تھی وہ کافی عرصے سے الٹے سیدھے کاموں میں ملوث ہوتا تھا۔

” ہاں کئی دفعہ ہم نے اسے جیجل کے ساتھ دیکھا ہے۔ “

۔ ”توتم نے پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے؟ “

” لو تم تو مجھ پہ ہی ناراض ہوگئے۔ میں نے سوچا کہ بچی ہے اس کا کیا بگاڑے گا۔ “

”ابھی کسی کو پتا ہے کہ رحمت کہاں ہے؟ “ ابا نے بحث کرنے سے بہتر سمجھا کہ پہلے جیجل کو ڈھونڈ لے۔

۔ ”ہاں وہ تو جب میں ادھر آ رہا تھا تو نالے کی طرف جاتا نظر آیا تھاشام میں۔ “ بچل نے بتایا تو ابا فوراً نالے کی طرف چل دیا۔

نالے سے کچھ ہی آگے گیا ہوگا کہ ابا کو چاند کی روشنی میں دھندلا دھندلا سا رحمت بیٹھا نظر آگیا۔ وہ مشکوک انداز میں کچھ کر رہا تھا۔ کچھ اور قریب گیا تو اس کی گود میں سوتی جیجل بھی نظر آگئی۔ رحمت کا ہاتھ اس کی فراک میں تھا۔ ابا غصے میں آپے سے باہر ہوگیا۔ آگے بڑھ کے رحمت کو گریبان پکڑ کے اٹھا لیا۔ جھٹکے سے جیجل کا سر زمین پہ لگا اور وہ ایک دم جاگ گئی۔ ابا کو غصے میں دیکھ کر وہ فوراً گھر کی طرف بھاگی جبکہ ابا رحمت کو مارتا ہوا گاؤں کے بیچ لے آیا۔ شور سن کے سب ہی جمع ہوگئے۔ سب غصے میں رحمت کو لعن طعن کرنے لگے۔ کچھ بڑوں نے آگے بڑھ کے معاملہ سنبھالا اور فیصلہ اگلے دن جرگہ میں کرنے کا مشورہ دے دیا۔ ایک رات کے لیے رحمت کو وڈیرے کی بیٹھک میں بند کردیا گیا۔

اگلی شام پھر گاؤں والے جمع ہوئے۔ ابا ابھی بھی غصے میں تھا اس کا کہنا تھا کہ ابھی اور اسی وقت رحمت کو پولیس کے حوالے کر کے پرچہ کٹوایا جائے۔ پہلے تو جرگہ اسے سمجھاتا رہا پھر ایک دم وڈیرے کو غصہ آگیا۔

” تمہیں شوق ہے پولیس تک معاملہ پہنچا کر برادری کی عزت اچھالنے کا تو شوق سے جاؤ ہمیں پھر بڑا بنا کے بٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔ جاؤ جاکر اخباروں میں بھی اپنی عزت کا تماشا لگوا لو۔ “

ابا فوراً معافیاں مانگنے لگا۔ اسے پتا تھا جرگے کا فیصلہ ناماننا مطلب برادری اور گاؤں دونوں چھوڑنے پڑیں گے۔ ابا کی حامی بھرنے پہ وڈیراہ رحمت سے مخاطب ہوا

” کیوں رحمت تو بتا؟ کریں تجھے پولیس کے حوالے یا یہیں معاملہ ختم کریں۔ “

رحمت نے ہاتھ جوڑ دیے

” سائیں آپ کے حکم سے سرتابی کی مجال ہے کیا؟ جتنی گندم کہیں میں دینے کو تیار ہوں۔ “

”نا رحمت نا۔ عزت کا بدلہ عزت۔ تیری بھی تو بیٹی ہے ایک۔ جیجل کے باپ مولا بخش کو عوضے میں دینی ہوگی۔ “

۔ ”سائیں میرا جرم اتنا بڑا نہیں ہے کہ میری بیٹی عوضے میں دی جائے۔ اور پھر یہ معاملے تو گندم کی بوری پہ طے ہوہی جاتے ہیں۔ “ رحمت نے شاید کسی پرانے فیصلے کا حوالہ دیا تھا۔

”ہو جاتے ہیں مگر یہ لڑکی ذات کا معاملہ ہے۔ “

رحمت گڑگڑانے لگا۔ اتنے میں ایک سولہ سترہ سال کا لڑکا ہجوم میں سے نکل کے آگے آیا۔

”وڈیرہ سائیں معاملہ ختم کریں دو بوری گندم کافی ہے۔ ویسے بھی مرد کی ذات تو عورت سے بڑی ہوتی ہے نا، تو بس جتنی میری عزت کی قیمت لگائی تھی اتنی کافی ہے۔ آپ کی دی ہوئی دو بوری گندم ابھی پڑی ہے میرے گھر میں، نہیں اترتی وہ کسی کے حلق سے لے لیں، کسی اور کی عزت کی قیمت بنا کے۔ “

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments