کپتان کو وزیراعظم رہنا چاہئے


مہنگائی نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ کپتان کے ہارڈ کور مداح بھی مدہم پڑتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کو کپتان نے اپنی سیاست کا میدان جنگ چنا تھا۔ یہیں اس کے لڑاکے بھگدڑ کا شکار محسوس ہوتے ہیں۔

کسی کو نہیں یقین آ رہا تو نہ مانیں ۔ کپتان کا اپنا خطاب سن لیں سوشل میڈیا کی ٹیم کے ساتھ ۔

شبر زیدی کو پکڑ پکڑ کر لاتے ہیں ۔ ذرا کسی کا دھیان ادھر ادھر ہوتا ہے وہ پھر دوڑ جاتے ہیں۔ اکانومی کور کرنے والے رپوٹر جو اس بھاگ دوڑ کی جو کہانیاں سنا رہے اس پر فلمیں بنتی ہیں۔

کپتان کے نامزد دونوں وزراعلی کو دیکھ دیکھ کر غش پڑتے ہیں۔ کوئی کیسے خود اپنے ساتھ ایسا کر سکتا ہے۔ محمود خان اور عثمان بزدار میں نااہلی کا عدم کارکردگی کا غیر موثر ہونے کا اک میچ ہے کہ جاری ہے۔

مانگ مانگ کر ہسپتال بنا لیا ۔ یونیورسٹی تعمیر کر لی ۔ پر یہ معیشت مانگ مانگ کر اگر چلتی تو اب تک دوڑ رہی ہوتی۔ مانگنے میں کسر یہاں بھی کس نے کب چھوڑی تھی۔ ہم نے آئی ایم ایف سے مانگا ، چین سے مانگا ، سعودیوں سے مانگا ، قطر سے مانگا ، یو اے ای سے مانگا۔ ترکی سے جرمانے کی معافی مانگی جو مل گئی۔

اس منگتا مہم سے جو ملا وہ سود پر قرضے تھے۔ پاکستان میں انٹرسٹ ریٹ دس فیصد سے بڑھ چکا ہے۔ ڈالر پر ہم مارکیٹ میں سب سے زیادہ منافع دینے والا ملک بن گئے ہیں۔ عالمی بنکوں سے ادھار لیکر مقامی اور غیر ملکی سیٹھوں نے پاکستانی بنکوں میں ڈالر رکھوا دیے ہیں۔ ہم اب ان پر مہنگا سود دیں گے۔ اب جب انٹرسٹ کہیں کم کریں گے تو مزے ماہیا پھر آئیں گے, کہ ڈالر پھر فلائٹ پکڑے گا۔

حکومت کا جو حال ہے ۔ یہ کسی بھی اپوزیشن کے لیے اک نادر موقع ہے۔ وہ باہر نکل کر بھی پارلیمنٹ میں جا کر بھی حکومت کا جلوس نکال دے۔ پر اپوزیشن سائیڈ پر بیٹھی دہی کھا رہی ہے۔ لوگوں کا بھی یہی دل کر رہا کہ اس اپوزیشن کو دہی لگا کر بھون کے کھا جائیں۔

یہ حالات ہی ہیں جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کے اپنے اندر سے بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔

کے پی میں کپتان کے اپنے پیارے ساتھیوں نے ایک کوشش کی۔ اب اپنی وزارتی کھو کر کپتان سے ملاقات میں کھسیانی ہنسی ہنستے پائے گئے۔

اس برطرفی سے کہانی میں ٹویسٹ آتا ہے۔ شہرام ترہ کئی اور عاطف خان نے اک ملاقات کی تھی۔ یہ شائد کامیاب رہتے لیکن اس ملاقات پر کپتان کا ری ایکشن بہت واضح تھا۔ اس نے بتا دیا کہ وہ اپنی ڈومین میں مداخلت نہیں کرنے دے گا کسی کو بھی۔ یہاں کسی سے مراد کسی سے بھی زیادہ انہی سے ہے۔

کپتان کی ووٹ بیس برقرار ہے۔ غلط یا ٹھیک اس نے اپنے حلقہ اثر کو مافیا کی کرپشن کی کہانیاں اچھی طرح یاد کرا رکھی ہیں۔ حالات کی وجہ سے اس کا مداح خاموش ضرور ہوتا جا رہا ہے۔ اس نے کپتان کو چھوڑا نہیں ہے۔ کپتان خود کھڑا ہو گیا کسی کے خلاف تو اس کا سپوٹر اسی کے ساتھ کھڑا نعرے مار رہا ہو گا۔

وہ پٹواری ہی تھے مسلم لیگ نون کے۔ جو شرماتے گھبراتے کبھی محکمہ زراعت کبھی خلائی مخلوق کا نام لیتے تھے۔ پھر ادھر ادھر دیکھتے تھے۔ کپتان یہ ہوائی باتیں نہیں کرے گا نام ہی لے گا۔ نکے دا ابا نہیں کہے گا۔

یہ بات کسی آئیندہ تبدیلی کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ دوسری رکاوٹ ہوشیار اپوزیشن ہے جو چاہتی ہے کہ اک بار تبدیلی والا کیڑا مر ہی جائے۔ وہ بھی خود کشی کر کے۔ ووٹر سپوٹر کو پتہ لگ جائے کہ باتوں سے کچھ ہوتا تو آج جرمنی جاپان کے ساتھ جڑا ہوتا ۔ ہم امریکہ سے آگے ہوتے ۔ گورے یہاں نوکریاں کر رہے ہوتے۔

وہ جنہیں کپتان سے سچا پیار ہوا تھا ۔ وہ اب بھی اسے ہی دیکھ کر اک ٹھنڈی آہ ہی بھرتے ہیں ۔ سوچتے ہیں کہ یہ ہمیں کیا ہو گیا تھا ۔ پر دل ان کا اب بھی اسی کو دیکھ کر دھڑکتا ہے۔

کپتان نے انہیں اتنا مایوس بھی نہیں کیا جو اسے لے کر آئے تھے۔ وہ اپنے پیارے وزیروں کو نکال کر میسج دیتا ہے ۔ جو سب نے سنا اور دیکھا۔ جو ہم نے نہیں دیکھا وہ یہ تھا کہ اپنے کسی پھنے خان پیارے کو وہ ذرا سی شکایت پر سائیڈ لائین کر دیتا ہے۔

جہانگیر ترین کو اگر ایک طرف کر سکتا ہے ۔ تو پھر وہ کچھ بھی کر گزرے گا ۔

بے اثر کہتے ہیں کہ نوازشریف کو عالمی دارلحکومتوں میں دوست ڈھونڈتے وقت لگا تھا۔ دوسری ٹرم میں وہ اپنے لیے پکے دوست بنا سکے تھے۔

کپتان جب پاکستان سے باہر جاتا ہے تو میڈیا کو اٹریکٹ کرتا ہے۔ اہم عہدوں پر موجود اسے پسند کرتے ہیں۔ اس کی بات سنتے ہیں۔ وہ سب باتیں جو کہہ کر بے نظیر نوازشریف غدار قرار پاتے۔ کپتان کھل کر کہتا ہے ۔ پھر بھی اس کی بلائیں لی جاتی ہیں۔

جس طرح مودی کو کپتان ٹویٹر پر جڑتا ہے ۔ یہ دیکھ کر بھی نہال ہو ہو جاتے ہیں سر جی۔

معیشت کا کیا ہے ۔ وہ تو ویسے بھی آئی ایم ایف دیکھ رہا ہے۔ فیل ہو یا پاس انہی کا درد سر جو اسے دیکھ رہے ہیں۔

کپتان نے اکانومی کے حوالے سے بھی بہت بولڈ فیصلے کیے ہیں ۔ سیٹھوں کی چیخیں نکل گئی ہیں ۔ ذرا پروا نہیں کی ۔ جو کہا گیا وہ کر دکھایا ۔ یہ جرات یہ ہمت پہلے کسی حکومت نے نہ دکھائی۔

لوگ چیختے رہیں گے ۔ حکومت برقرار رہے گی ۔ معیشت آخر کتنا نیچے جائے گی ۔ اک دن واپسی کا روٹ لے لے گی ۔ کپتان کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں ۔ ایسا پیار کرنے والا جس پر مرنے کو دل کرے پھر ڈھونڈے سے نہ ملے گا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments