احسان اللہ احسان پر کس نے “احسان” کیا؟


جن دنوں آدھی آبادی قوم کی بیٹیوں رابی پیرزادہ، حریم شاہ اور صندل خٹک کا معما سمجھنے اور باقی آبادی پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو ظالموں کے قید اور کرفیو سے آزاد کروانے میں مصروف تھی، لگ بھگ انہی دنوں، ہمارے قومی مہمان جناب احسان اللہ احسان، سکیورٹی اداروں کی میزبانی سے نا خوش ہو کے، اپنا بوریا بستر گول کرکے نکل گئے۔ تین برس تک سکیورٹی اداروں کے مضبوط ہاتھوں میں رہنے والے تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا جس طرح سکیورٹی اداروں کے پاس ہونا پراسرار تھا، اس طرح ان کا اپنے میزبان سے غیر مطمئن ہو کر فرار ہونا بھی پراسرار معاملہ بنا ہوا ہے۔

لیاقت علی المعروف احسان اللہ احسان نے تین سال پہلے 2017 میں ایک معاہدے کے تحت خود کو سکیورٹی اداروں کے سپرد کیا تھا۔ احسان اللہ احسان کے خود کو پیش کرنے کے ‘احسان’ پر، آئی ایس پی آر سے لے کر قوم کے دیگر ترجمانوں تک نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

آپریشن ضرب العضب کے دوران اکثر احسان اللہ احسان کا نام میڈیا میں سنا گیا، لیکن ان کو زیادہ شہرت سوات میں ملالہ یوسف زئی اور ان کی ساتھی طالبات پر ہونے والے حملے کی ذمے داری قبول کرنے کے بعد ملی۔ احسان اللہ احسان کے نظریاتی اقوال سننے کے لیے آپ 12 مئی 2017ء کو جیو نیوز پر نشر ہونے والا ان کا انٹرویو یو ٹیوب پر سرچ کر سکتے ہیں.

ریاستی قوانین کی دھجیاں اڑانے اور ریاست کو چیلنج کرنے والی تحریک طالبان کے ترجمان کو پرائم ٹائم میں سلیم صافی کے ساتھ بٹھا کر ان کو اپنا نیا تعارف پیش کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ ایک طرف تو تحریک طالبان پاکستان کے محصور ترجمان کو ٹی وی اسکرین پر فخریہ پیشکش کے طور پر لایا گیا، تاہم عوامی نمایندو‍ں مریم نواز اور آصف علی زرداری کے انٹرویو اور تقاریر نشر نہ ہو سکیں۔ اور تم ان کے کون کون سے احسان کو جھٹلاو گے!

احسان اللہ احسان حفاظتی تحویل سے کیوں کر نکلے، اس کہانی کی تفصیل ابھی آنی ہے. ان کا کہنا ہے “پاکستانی سکیورٹی ادارے کے ہاتھوں سے وہ اللہ کی مدد سے نکل آئے ہیں۔” جب وہ کہتے ہیں، “اللہ کی مدد” تو آپ سب کو اسے “اللہ کی مدد” ہی ماننا ہو گا۔ انہوں نے اپنے صوتی پیغام میں اپنا نیا مقام ترکی بتایا ہے، مگر ان کی موجودگی افغانستان میں بتائی جا رہی ہے۔ تین سال اپنے خاندان کے ساتھ حفاظتی تحویل میں رہنے والے احسان اللہ احسان کو پاکستانی سکیورٹی اداروں سے معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کی بھی شکایت ہے۔ وہ فرار کیسے ہوئے؟ اور ان کو سکیورٹی اداروں سے کیا شکایات ہیں؟ قوم جلد یہ راز جاننا چاہتی ہے. مگر قوم کو یہ بتائے گا کون؟ قومی رازوں کی یہاں بہت حفاظت کی جاتی ہے. احسان اللہ احسان کا کہنا ہے کہ وہ حفاظتی تحویل کے دوران میں تکلیف میں تھے. ہر بات میں سازش ڈھونڈنے والوں کا کہنا ہے، کہ مہمان کو تکلیف میں رکھنا ہماری مشرقی روایت نہیں، لہذا یہ دعویٰ درست نہیں.

سلیم صافی کے پروگرام میں احسان اللہ احسان نے جو باتیں کی تھیں، وہ سن کر لگتا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب احسان اللہ احسان امن کا نوبل انعام جیتنے والی ملالہ یوسف زئی کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے. اس غازی، اللہ کے اس پراسرار بندے سے کچھ بھی متوقع ہے۔ پنڈی یا پشاور میں ان کو میزبانوں کی میزبانی کیسی لگی؟ بقول ان کے یہ سب کچھ وہ جلد بتانے والے ہیں۔ خیر ہے، گلہ شکوہ بھی تو اپنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بس ان کو ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے، کہ گھر کی بات باہر نہ نکلے تو بہتر یے۔

لیکن ایک بات ہے، کہ احسان اللہ احسان، مراد سعید، علی محمد خان اور شیخ رشید کے لیے کام بڑھا گیا ہے، یہ اس نے اچھا نہیں کیا۔

 

اشفاق لغاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اشفاق لغاری

لکھاری، میڈیا سائنسز کا طالب علم ہے۔ پڑھنا، لکھنا، گھومنا اور سیاحت کرنا اس کے محبوب کاموں میں شامل ہیں۔

ashfaq-laghari has 32 posts and counting.See all posts by ashfaq-laghari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments