مہنگائی کا طوفان رُکے گا بھی؟


حکمران جماعت کی مقبولیت روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے اس کی وجہ اس کی پالیسیاں ہیں جو زیادہ تر غیر عوامی ہیں لہٰذا عوام انہیں ناپسند کرنے لگے ہیں مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ حکمرانوں کو اس امر کا احساس نہیں وہ آنکھیں بند کیے مزید پالیسیاں بناتے چلے جا رہے ہیں جو عوام مخالف ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں وہ مجبور ہے کہ ایسی پالیسیاں بنائے کیونکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لیتی ہے جو انہیں اپنی شرائط پر من و عن عمل درآمد کرنے کا حکم صادر کرتے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہین ہے کہ عوام مر رہے ہیں جی رہے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اْن کی اقساط تسلسل سے اْن کی تجوریوں میں منتقل ہو رہی ہیں؟

اگر ان میں کوئی تعطل آتا ہے تو وہ فکر مند ہو جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اْن کے ضوابط کو نظر انداز کیا جا رہا ہے لہٰذا وہ سیدھا چلنے کے پابند نہیں یعنی وہ اپنی رقوم کی ترسیل کو روک سکنے میں حق بجانب ہیں اس طرح کی دھمکی ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہوتی ہے لہٰذا حکومت کہتی ہے کہ اگر خزانہ خالی اور ملک ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو یہ بڑی خطرناک صورت حال ہو گی لہٰذا شرائط کو ماننا بہتر ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ مگر وہ یہ بھول جاتی ہے کہ اگر عوام کو پریشان کیا جاتا ہے ان پر طاقت سے ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں اْن کو جینے کی راہ سے دْور کیا جاتا ہے اور اْن میں اس عمل سے نفرت کا طوفان امڈ آتا ہے تو کیا یہ بات ملک کے لیے ٹھیک ہوتی ہے ہرگز نہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اچھے دانا قسم کے عوام دوست وزیروں مشیروں کو آگے لائے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو بتائیں کہ عوام ان شرائط کے متحمل نہیں اْن میں اب مزید سختی سہنے کی برداشت نہیں وہ پچھلے بیس برسوں سے کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے چلے آ رہے ہیں اس کا ثبوت ملک بھر میں اعضاء کا فروخت ہونا ہے جسم فروشی کا بڑھنا ہے نوجوانوں کی حکمت کا متاثر ہونا ہے اور تعلیم کے میدان کا سکڑ جانا ہے لہٰذا وہ اپنے پروگرام میں لچک پیدا کرے غریب ترقی پذیر ممالک کو کچھ سہولتیں دینے کی طرف آئے۔ !

چند روز پہلے ایک خبر نظروں سے گزری کہ آئی ایم ایف کا ایک وفد پاکستان میں آیا ہے جو یہ دیکھے گا کہ اگلی قرضے کی قسط کا اجراء کیا جائے یا نہیں یعنی وہ اس پہلو کو پیش نظر رکھے گا کہ اگر ہم نے اس کی شرائط پر عمل درآمد کیا ہے کہ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھائی ہیں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے اور نئے ٹیکس لگائے ہیں جو اْن کی اقساط کے لیے ضروری ہیں تو مزید قرض دے دیا جائے ایک اور بات میں بھول گیا کہ اْس نے اس بار سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

حکومت سے اْس نے دوٹوک کہہ دیا ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو بھی معاملات بگڑ سکتے ہیں اب کوئی کہاں جائے کہ اگر حکومت تھوڑی بہت رعایت کر کے ریلیف دے دیتی ہے اس کے خاتمے کے بھی وہ در پے ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر حکومت کو اْس کے آگے کھڑا ہونا پڑے گا کیونکہ وہ منتخب حکومت ہے اسے اپنے منشور کو بھی سامنے رکھنا ہے ملک کی اندرونی و بیرونی فضاوں کا بھی خیال کرنا ہے اور عوام کو منتشر ہونے سے بھی روکنا ہے جو اسی صورت ممکن ہے کہ وہ اپنی بھی منوائے اگر وہ آئی ایم ایف ہی کا مانتی ہے تو پھر اس کے ہاتھ سے اقتدار کی باگ کھسک سکتی ہے کیونکہ اس وقت عوام بپھرے ہوئے ہیں مہنگائی جو سرکاری طور سے بڑھ رہی ہے اس پر وہ اس کے خلاف ہو چکے ہیں کہ اگر اسے مالیاتی اداروں کے بنائے ہوئے ضابطوں پر چلنا تھا وہ کیوں عوام سے وعدے کرتے رہی اور اْنہیں روشن مستقبل کی نوید دیتی رہی اس کی جگہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت بھی آ سکتی تھی جو اس طرح کے سخت فیصلے کر کے معیشت کو مضبوط بنانے اور عوام کو کمزور کرنے کی منصوبہ بندی کرتی؟

وہ ایک عوامی حکومت ہے اس کا ملک کے طول و عرض میں ووٹ بینک ہے اگرچہ اب وہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے مگر موجود ہے یہ سلسلہ سختیوں کا جاری رہتا ہے تو وہ بھی پی پی پی کی طرح سکڑ سمٹ جائے گی اور ایک صوبے کی جماعت تک محدود ہو جائے گی شاید چند اضلاع تک کیونکہ آ جاکے اس کی کے پی کے میں اکثریت ہے اب وہ بھی نہیں رہی وہاں کے لوگ بھی اکتاہٹ اور بیزاری کا اظہار سر عام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ سنبھل ہی نہیں پا رہی اس کے ہاں جو وزیر ہیں باتدبیر نہیں پھر وہ اپنے خون دینے والے کارکنان سے کنارہ کش ہو چکی ہے اسی کی قیادت کو مافیاز نے ایک طرح سے جکڑ لیا ہے جو آئے روز مبینہ طور سے مختلف النوع بحرانوں کا سبب بنتے رہتے ہیں مگر وزیراعظم عمران خان ڈٹے ہوئے ہیں وہ اپنی ضد سے پیچھے نہیں ہٹ رہے اور اْن سے بغل گیر ہیں وہ ہی تگڑوں کا کلچر واپس لوٹ آیا ہے وہی پر دھان وہی حکمران۔

ماڑے بندے کو کوئی پوچھتا تک نہیں وہ رْل رہا ہے جیسے پہلے رْلتا تھا فرق اب کوئی نہیں رہا۔ لہٰذا عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ عمران کو ایک لیڈر مانتے تھے مگر اس نے مایوس کیا۔ بعض تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نے ہمیں دھوکا دیا۔ ۔ ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں ایسی صورت حال کے پیدا ہونے کا اندازہ ہی نہیں تھا مگر ہم ایسے لکھنے والے یہ کہتے رہے کہ وہ جنہیں سینے سے لگایا گیا ہے انہیں پریشان کریں گے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی گیڈر کو خربوزوں کا رکھوالا بنایا جائے اور وہ خربوزے نہ کھائے وہ لازمی کھائے گا اور کچھ خراب بھی کرے گا لہٰذا اس وقت وہی کچھ ہو رہا ہے۔

ایک طرف آئی ایم ایف کی ماننا پڑ رہی ہے تو دوسری جانب ”اپنوں“ کی۔ ۔ ۔ اس طرح مل جل کر عوام کا بھرکس نکالا جا رہا ہے اور وہ بے چارے بے بس ہیں کچھ نہیں کر سکتے۔ سڑکوں پر آئیں گے تو اْن پر بدترین تشدد کیا جائے گا۔ بہرحال حکمرانوں کے پاوں تلے سے زمین نکل رہی ہے وہ مانیں یا نہ مانیں آنے والے دنوں میں ایک اور مہنگائی کے خوفناک طوفان کی پیش گوئی کی جا رہی ہے جو عوام کو واقعتاً زندہ درگور کرنے کے مترادف ہو گا۔

 حکومت کا بیانیہ مختلف ہے وہ کہتی ہے کہ عالمی سطح پر ملک کی معیشت کو بہتر قرار دیا جا رہا ہے ایسا بھی ہو گا کیونکہ جب عوام کا سب کچھ لوٹ کر اْن کو تجوریاں بھر دی جائیں گی تو وہ ضرور بہتر کہیں گے دیکھنا ہمیں اپنے عوام کو ہے جو آنسو بہا رہے ہیں آہیں بھر رہے ہیں اور گزرے وقت کو بھی تھوڑا یاد کر رہے ہیں کہ جب انہیں زندگی کے لالے نہیں پڑتے تھے اب تو ہر آنے والا دن انہیں ڈراتا ہے ان کی سانسوں کو بے ترتیب کرتا ہے مگر حکومت نہیں مانتی۔

 ایک ٹی وی چینل پر صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان بھی سب اچھا کی گردان کر رہے تھے اور اینکر کو اس سے اتفاق کرنے کا بھی کہہ رہے تھے مگر اینکر جو خاتون تھیں انہیں حقائق بتا رہی تھیں۔ وزیر صاحب بھلا کہاں کرنے وہ عمران خان کی طرح اپنی بات پر ڈٹے رہے۔

حرف آخر یہ کہ عوام جب محسو س کرتے ہیں تو کوئی تاثر اچھا یا برا ابھرتا ہے لہٰذا اس وقت عوام میں بے چینی نفرت اور پریشانی پائی جاتی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کو حکمرانی کرنے کا ڈھنگ نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments