شہید حضرت مخدوم بلاول باغبانیؒ


تاریخ میں ویسے تو سینکڑوں کردار یادگار ہیں لیکن ایسے کردار ہمیشہ کے لیے تاریخ کے اوراق میں اپنے انمٹ نقُوش چھوڑنے میں کامیاب رہے ہیں جنہوں نے صداقت کا ساتھ دیتے ہوئے، اپنی اس عارضی زندگی کو بچانے کے لیے، کسی مصلحت سے کام نہیں لیا بلکہ حق کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گُریز نہیں کیا اور فخریہ اندازمیں اپنی جان قربان کرنے کو ترجیح دی۔ ایسی عظیم شخصیات دنیا بھر کے ہرخطّے میں پیدا ہوئیں۔ اس سرزمین سے متعلق ایسے عظیم کرداروں میں، شہید حضرت مخدوم بلاول باغبانیؒ جیسے مُحبِ وطن، انسان دوست اور بہادر شخصیت کا نام سرِ فہرست ہے، جنُہوں نے حق کی جنگ لڑتے ہوئے، اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

مخدوم بلاولؒ 856 ہجری بمطابق 1451 ء میں، سابقہ دادُو اور موجُودہ جامشورو ضلع کے ’ٹلٹی‘ نامی قصبے کے ’سموں‘ قبیلے کے گھرانے میں، حَسن سموں کے گھر میں پیدا ہوئے۔ یہ حکمران گھرانہ تھا۔ مخدوم بلاولؒ کے آباواجداد، لسبیلہ (موجودہ بلوچستان) سے متعلق تھے، جن کو سُومرا دورِحکومت میں وہاں حاکم مقرر کیا گیا تھا۔ مخدوم بلاولؒ کا بچپن ہی سے رُجحان اسلامی تعلیمات کی طرف رہا۔ والدین کی طرف سے بھی اُن کو تعلیم کے لحاظ سے اُسی ڈگر پرڈالا گیا، گویا ایک اعلیٰ اوصاف کے صاحب شخص، کے کردار کی تعمیر کا آغاز یہیں سے ہوا۔

انہوں نے ابتدائی اسباق، سیّد شہاب الدّین بخاری کے مدرسے میں سیّد نُور حسین شاہ بخاری کے پاس پڑھے، جہاں اُنہوں نے ناظرہ قرآن اور فقہ کی کتب کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبان و گرامر (صرف و نحو) کی تعلیم بھی حاصل کی۔ کم عمری میں ہی وہ دینی تعلیم کے حصُول کی بدولت شرعی تعلیم کے لحاظ سے، اپنے وقت کے منجھے ہوئے عالِم اور فقیہہ ثابت ہوئے۔ انہوں نے اپنی تمام زندگی عبادت، زہد اور تقویٰ میں گزاری۔ ان کی شخصیت اور علم کے گُن تمام ہندُوستان میں پھیل گئے۔

دہلی کے اُس وقت کے انتہائی معرُوف شاعر و مصنف، مخدُوم جمالی، پیدل حج پر جاتے ہوئے یہاں سے گُزرے، تو وہ اپنے سندھ سے گُزرنے کی رُوداد لکھتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: ”سندھ میں تین رُوحانی رہبر اور عالم ہیں۔ 1۔ لال شہباز قلندرؒ، 2۔ مخدوم بلاولؒ اور 3۔ مخدُوم نُوح سرورہالائیؒ“۔ بعدازاں مخدوم بلاولؒ، ٹلٹی چھوڑ کر دادو کے قریب ’باغبان‘ کے مقام پر آن بسے۔ آج کل اس قصبے کو مخدوم بلاولؒ ہی کے نام سے منسُوب کیا گیا ہے۔

یہاں مخدوم بلاولؒ نے ایک مسجد اور مدرسہ تعمیر کر کے اسلامی تعلیمات کی تدریس کا کام شرُوع کیا اور حق کی تبلیغ بھی ساتھ ساتھ جاری رکھی۔ مدرسے کے ساتھ ہی مخدوم بلاولؒ نے محنت سے اپنی روزی کمانے کے عزم کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے کپڑے بُننے کا کام شروع کیا، جہاں وہ اپنے طلباء کے ساتھ کپڑے بنانے کا کام کرتے تھے، جہاں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے وہ خود اپنے اور اپنے طلباء سمیت مسجد اور مدرسے کے اخراجات پُورے کیا کرتے تھے۔

اس دور میں میراں محمّد جونپُوری، سندھ میں مہدوی تحریک کے پھیلاؤ کے حوالے سے کوششیں کرنے لگے، جو بات مُحبِ وطن، مخدوم بلاولؒ کو بالکل نہیں بھائی۔ میراں مُحمّد جونپُوری اس سلسلے میں عملی اقدامات کرنے کے لیے سندھ میں آیا، تو اُسے دریائے سندھ کے راستے سفر کرتے ہوئے، ’سَن‘ کے قصبے سے گُزرتے ہوئے، مخدوم بلاولؒ کے معتقد، حیدرسنائی کی مزاحمت کا سامنہ کرنا پڑا، جس کی رکاوٹ نے جونپُوری کو واپس لوٹنے پر مجبُور کر دیا۔

میراں مُحمّد جونپُوری نے اپنی رُسوائی، سندھ میں اپنی تحریک کی شکست اور ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے مرزا شاہ بیگ ارغُون کی معرفت مخدوم بلاولؒ کو شہید کروایا، کیونکہ اُس وقت ٹھٹے کے سماں حکمران، جونپُوری کے حامی تھے اور اُس کی بات با آسانی مانتے تھے۔ سندھ میں سماں دورِ حکُومت کے دوران، جام فیروز کے زمانے ( 914 ہجری تا 927 ہجری) میں جب مرزا شاہ بیگ ارغُون، سندھ پر حملہ کرتے ہوئے، باغبان سے گُزرا، تو مخدوم بلاولؒ اور اُن کے مُریدین نے حب الوطنی اور قومی غیرت کے جذبے کے تحت اُن پر دھاوا بول دیا۔

شاہ بیگ اس حملے سے بمشکل جان بچا کر ٹھٹّے پہنچا اور جام فیروز جیسے غدّار حاکمِ سندھ سے سیوہن کا علاقہ معاہدے کے تحت اپنے زیرِ تسلط لکھوا کر ٹلٹی کے نواح میں آ کرلوگوں کو اپنے ساتھ باندھنا شرُوع کیا۔ کچھ لوگ ان کے ساتھ مل گئے، جب کہ کئیوں نے مخدوم بلاولؒ کے ساتھ وفاداری کا ثُبُوت دیتے ہوئے، شاہ بیگ ارغُون کا ساتھ نہیں دیا۔

مخدوم بلاولؒ جیسے صادق اور بہادر انسان کو زیر کرنے کے لیے سوائے جُھوٹ کا سہارا لینے کے شاہ بیگ ارغُون جیسے سفّاک کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا، لہذا اُس نے ایک انتہائی گری ہوئی سازش گھڑ کے موچی سے چپلوں کی ایک جوڑی بنوا کر اُس کے اندر مقدّس اوراق ڈال کر وہ جوڑی مخدُوم صاحب کی خدمت میں پیش کی اور لوگوں میں اس بات کو عام کردیا کہ جُوتوں میں ان مقدّس اوراق کو ڈالنے کی بے حرمتی مخدوم بلاولؒ نے کی ہے لہذا کچھ لوگوں کو اس بات کا گواہ بنا کر مُفتیانِ وقت سے زبردستی جُھوٹا فتویٰ لے کر، مخدوم بلاولؒ کے لیے موت کی سزا کا اعلان کروایا۔ گو کہ جوتوں کی وہ جوڑی مخدوم بلاولؒ نے بھُولے سے بھی اپنے پاؤں میں نہیں پہنی تھی، مگر چونکہ شاہ بیگ کو کسی بھی طرح اپنی رسوائی اور ناکامی کا بدلہ لینا تھا، اس لیے و سفّاکی کی سب حدیں پار کرنے کو تیّار تھا۔

مخدوم بلاولؒ کو اس جھوٹے الزام کے تحت 929 ہجری، بمطابق 1522 ء میں شہید کیا گیا۔ روایت کے مُطابق، مخدوم بلاولؒ کے جسد کو تیل نکالنے والی ایک بڑی مشین میں ڈال کر انتہائی اذیّت ناک انداز میں شہید کیا گیا اور وہ تادمِ آخری، اپنے پیروں سے لے کر دھڑ تک کے پیسنے، اپنے جسم کا قیمہ بننے اور لہُولہان ہونے کا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے اور کلمہء حق پڑھتے ہوئے حق کی خاطر اپنی جان دے گئے۔

مخدوم بلاولؒ جیسی شہادت کی نظیر تاریخ میں کہیں اور نہیں ملتی۔ روایت کے مُطابق مخدوم بلاولؒ نے فارسی میں شاعری بھی کی۔ کچھ اسکارز اور محققین نے اپنے تحقیقی مقالوں میں ان کے کچھ اشعارکا ذکربھی کیا ہے۔

مخدوم بلاولؒ، دادُو سے 10 کلومیٹر دُور، اُسی قصبے میں، اپنی مسجد اور مدرسے کے احاطے میں آرامی ہیں۔ جہاں آج بھی ان گنت لوگ حاضر ہوکر، تاریخ کے اس امر کردار کو سلامی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments