مہنگائی، بے روزگاری۔ سب سے بڑے مسائل!


ناروے کے سفر کی روئیداد تو میں نے لکھ دی لیکن کہانی ختم نہیں ہوئی۔ میں اس کہانی کو تو نہیں چھیڑنا چاہتی لیکن وہاں مقیم پاکستانیوں کی سوچ اور جذبات کا ذکر ضرور کرنا چاہتی ہوں۔ جب بھی مجھے دوسرے ممالک میں جانا پڑا، وہاں مقیم پاکستانیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ مجھے یہی محسوس ہوا کہ بظاہر یہ لوگ رزق روزی کی تلاش میں ملک سے دور آ جاتے ہیں لیکن درحقیقیت یہ پاکستان ہی میں بستے ہیں۔ یوں تو زمانہ بدل چکا ہے۔

نئی سائینسی ایجادات بالخصوص ٹیلی ویژن اور سمارٹ فون نے ساری دنیا تبدیل کر ڈالی ہے۔ اب بے خبری کا دور نہیں رہا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہم سے بھی زیادہ با خبر ہیں، لیکن وہ جب بھی ملتے ہیں گفتگو کا سلسلہ اسی سوال سے شروع ہوتا ہے۔ ”کیا حال ہے پاکستان کا؟ “۔ پاکستان کے حال احوال سے پوری طرح باخبر یہ سمندر پار پاکستانی جب اپنے وطن کا حال پوچھتے ہیں تو سچی بات یہ ہے کہ موسم یا ادھر ادھر کی دو چار بے تکی سی باتوں کے علاوہ کچھ کہنے کو جی نہیں چاہتا۔

ظاہر ہے یہ لوگ کسی اچھی خبر کے لئے ہم سے یہ باتیں پوچھتے ہیں اور جب ہمارے پاس کوئی اچھی خبر نہ ہو تو بہتر ہے کہ انہیں پریشان کرنے سے گریز کیا جائے۔ لیکن اس سے بھی معاملہ ختم نہیں ہو جاتا۔ وہ بولتے ہیں ”سنا ہے مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سنا ہے بے روز گاری عام ہو گئی ہے۔ سنا ہے سٹریٹ کرائمز میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ سنا ہے کہ آٹے کی قیمت میں اچانک اضافے نے لوگوں کو بہت پریشان کر دیا ہے۔ سنا ہے کرپشن میں کمی آنے کے بجائے اس میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

سنا ہے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کم کرنے سے ہر چیزبہت مہنگی ہو گئی ہے۔ سنا ہے دواوں کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ ”۔ یوں وہ ہولے ہولے خود ہی بولتے اور پاکستان کی صورتحال کا نقشہ کھینچتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ پاکستان میں مقیم اپنے عزیزوں کے حوالے سے مختلف کہانیاں سنانے لگتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر پریشان ہیں۔

پاکستان سے باہر بیٹھ کر ان پاکستانیوں سے ایسی گفتگو سے دل مزید پریشان ہو جاتا ہے۔ ایک ایسی ہی محفل میں، میں نے کہا کہ ایسی مایوسی والی بھی کوئی بات نہیں۔ حکومت کوشش کر رہی ہے۔ اس نے اچھے اقتصادی ماہرین کی ٹیم کو معیشت کی بحالی اور تعمیر نو کے مشن پر لگا دیا ہے۔ تجارتی خسارہ کم ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ یہ سال عوام کے لئے اچھا ثابت ہو گا اور معیشت اپنے پاوں پر کھڑی ہو جائے گی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس چھوٹے سے گروپ میں معاشیات کا ایک جواں سال استاد بھی موجود ہے۔

اس نے میری بات کو ٹوکتے ہوئے جوشیلے انداز میں پاکستان کی معاشی صورتحال کی انتہائی بری تصویر کھینچنا شروع کر دی۔ ”میڈم! آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ جب کوئی ملک 5.8 کی شرح نمو پر چلتا ہوا 3 فیصد یا اس سے بھی کم پر آ جائے تو کون بے وقوف آدمی کہے گا کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔ ملک کے نو جوانوں کا روز گار اسی شرح نمو یعنی جی۔ ڈی۔ پی سے جڑا ہوتا ہے۔ جی۔ ڈی۔ پی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ کارخانے نہیں چل رہے۔

نئی سرمایہ کاری نہیں آ رہی۔ جب یہ سب کچھ نہیں ہوتا تو پھر اس کا لازمی نتیجہ بے روزگاری کی صورت میں نکلتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگا کہ آپ نے تجارتی خسارہ کم ہونے کی بات کی ہے۔ یہ خسارہ اس لئے کم نہیں ہوا کہ ہماری برآمدات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ روپے کی قیمت میں 35 فیصد کمی کے با وجود ہماری برآمدات میں بہت معمولی اضافہ ہوا ہے۔ خسارے میں برائے نام کمی کی وجہ یہ ہے کہ ہماری درآمدات بہت زیادہ گر گئی ہیں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ درآمدات گرنے کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ملک میں صنعتی اور ترقیاتی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں اور انہیں خام مال کی ضرورت ہی نہیں رہی ”۔

میں نے ایک آدھ باراس نوجوان کو ٹوکنے اور کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن وہ پتہ نہیں کب سے جلا بیٹھا تھا۔ کہنے لگا کہ میں پی۔ ٹی۔ آئی کا مخالف نہیں ہوں۔ میں نواز شریف یا آصف زرداری کا ہرگز حامی نہیں ہوں۔ یہ میرے دوست یہاں بیٹھے ہیں۔ یہ میری بیگم ہیں۔ آپ ان سے پوچھ لیجیے میں پی۔ ٹی۔ آئی کا کتنا بڑا وکیل تھا۔ عمران خان کے لئے میں نے کتنا کام کیا۔ لیکن پچھلے تقریبا ڈیڑھ سال میں جو نتائج سامنے آئے ہیں، ان سے کیسے آنکھیں بند کر لیں؟ کہنے لگا میں سیاست کی خبریں بہت کم پڑھتا ہوں۔ لیکن پاکستان کی معاشی صورتحال کے بارے میں انگریزی اخبارات کے بیشتر آرٹیکلز پڑھتا ہوں۔ پاکستان سے باہر کے اخبارات میں بھی ایسے آرٹیکلز آتے رہتے ہیں۔ مختلف عالمی تھنک ٹینکس اپنے سروے دیتے رہتے ہیں۔ کہیں سے بھی کوئی امید کی کرن نہیں ملتی۔ ”

ایسی ہی ایک اور میٹنگ کا بھی تجربہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ بیرون وطن اپنے وطن کی منفی تصویر پیش کرنے والوں سے میں الجھتی نہیں اور نہ ہی ان کی ہاں میں ہاں ملانا چاہتی ہوں۔ لیکن جب ٹھنڈے دل سے، ہر طرح کے سیاسی گرد و غبار کو ذہن سے ہٹا کر دیکھا جائے تو افسوس ہی ہوتا ہے کہ صورت حال بہتر ہونے کے بجائے بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ اعداد و شمار کا کھیل اور معاشی اصطلاحات کی بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی نے واقعی پاکستانیوں کی زندگیاں عذاب کر دی ہیں۔

اشیائے خورد و نوش اور روزمرہ استعمال کی چیزیں اوسط آمدنی والے افراد کی پہنچ سے بھی باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ نہایت ہی محدود آمدنی والے غریب اور نادار لوگ تو فاقہ کشی اور خود کشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ دیہاڑی دار محنت مزدوری کرنے والوں کی حالت نا گفتہ بہ ہو چکی ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی غریب عورتیں جو کہا نیاں سناتی ہیں، انہیں سن کر آنسو نکل آتے ہیں۔ حال ہی میں جب آٹا ستر، اسی روپے کلو تک پہنچ گیا تو پورے ملک میں دہائی مچ گئی۔

بتایا جاتا ہے کہ پہلے صرف انتیس ( 29 ) روپے کلو کے حساب سے لاکھوں ٹن گندم ملک سے باہر بھیجی گئی اور اب وہی گندم شاید اس سے دگنی قیمت پر درآمد کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے جب آٹے کی قیمت بڑھے گی تو روٹی کی بھی ضرور بڑھے گی۔ جب روٹی بھی غریب کی دسترس سے دور ہو جائے گی تو وہ کیا کھائے گا؟ اس سے آگے بڑھیں۔ بجلی کے نرخ کئی گنا زیادہ ہو گئے ہیں۔ ایک ڈیڑھ ہزار کا بل ا ب پانچ ہزار کا ہو چکا ہے اور پانچ ہزار والا بیس ہزار کو چھو رہا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کا بھی یہی حال ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس وقت تقریبا ایک چوتھائی آبادی، غربت کی لکیر سے نیچے گر چکی ہے۔ یعنی تقریبا پانچ کروڑ سے زائد لوگ، اس پیمانے پر پورے اترتے ہیں جس پر نچلے درجے کی غربت کو ماپا جاتا ہے۔

حکومت کی ترجیحات کے حوالے سے بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر عمران خان کرپشن کو اپنی سب سے بڑی ترجیح خیال کرتے ہیں۔ انتخابات سے قبل چونکہ اس بات کو انہوں نے اپنی پہلی ترجیح قرار دیا تھا اس لئے آج بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ شاید ان کا سب سے بڑا کام یہی ہے۔ یہ الگ بات یہ کھوکھلے بیانات اور الزامات سے ہٹ کر اس ضمن میں کوئی ٹھوس عملی اقدام ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ادھر عوام کی سوچ قطعاً مختلف ہے۔

دو ماہ قبل گیلانی ریسرچ فاونڈیشن اور گیلپ کے ایک پول کے نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ اس سروے کے مطابق ملک کی بھاری اکثریت یعنی 53 فیصد مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتی ہے۔ 23 فی صد کا کہنا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔ صرف 8 فیصد نے کشمیر کو مسئلہ قرار دیا۔ 4 فیصد نے پانی، 2 فیصد نے سیاسی عدم استحکام جبکہ صرف ایک فیصد نے بجلی یا لوڈشیڈنگ کو مسئلہ قرار دیا۔ عوام سے کرپشن کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا۔ ان میں سے صرف 4 فیصد نے کرپشن کو مسئلہ قرار دیا۔ اس سروے کیمطابق 76 فی صد عوام صرف مہنگائی اور بے روزگاری کو بڑے مسائل سمجھتے ہیں جبکہ حکومت کے خیال میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، جسے عوام صرف 4 فی صد قرار دے رہے ہیں۔

ملک بھر میں انتہا درجے کی بے چینی نے بے یقینی میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ میں ناروے کے بعد اپنی والدہ اور گھر والوں کے ہمراہ عمرے پر گئی۔ دیار حجاز میں بھی پاکستانیوں سے ملنے اور بات کرنے کا موقع ملا۔ میں وہاں بھی وطن کی صورتحال کے روشن پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتی اور ناکام ہوتی رہی۔ کاش اس ملک کے عوام کی زندگیاں بدلیں اور ہم دنیا میں جہاں بھی جائیں، اپنے ہم وطنوں کے لئے اچھی اچھی خبروں کی جھولیاں بھر بھر کے لے جائیں۔ آمین۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments