ایران کے بعد سعودی عرب
اسلام آباد سے لاہور آئے کچھ ہی دن ہوئے تھے۔ نوکری شروع کیئے سال ہو چلا تھا۔ ایک شام پیغام آیا کہ کل صبح آپ سٹینڈ بائے ہوں گے، اگر ضرورت پڑی تو آپ کو بلا لیا جائے گا۔ بین السطور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بیٹے کل جو بھی شدید قسم کی مشکل النسل اور روح فرسا فلائیٹ ہو گی وہ آپ جناب کے گاٹے فٹ ہو گی۔ خیر نوکر کی تے نخرا کی پھر بھی برا سا منہ بنا کہ سونے کے لئے لیٹ گیا۔ نیند آنی تھی، نہ آئی۔ موت کا وقت معین تھا چنانچہ نیند بھی رات بھر نہیں آئی۔ جانے کس پہر نیند کا ایک جھونکا آیا اور اسی وقت میرے نوکیا تینتس تیس موبائل کی گھنٹی بج پڑی۔ ہیلو کیا تو دوسری طرف سے ایک شائستریلی ( شائستہ + زہریلی ) آواز سنائی دی کہ آپ مشہد فلائیٹ کریں گے۔ نیند تو آ نہیں رہی تھی، فلائیٹ کا پیٹرن پوچھا تو رہی سہی بھی غائب ہو گئی۔ لاہور سے کوئٹہ سے مشہد سے کوئٹہ سے لاہور آنا جانا تھا بس۔ سکتے کے عالم میں زیادہ دیر رہنے کا وقت نہیں تھا لہذا پانچ سات سیکنڈ سکتے کو دے کر واپس لوٹ آیا۔ بیس منٹ میں گاڑی لینے کے لئے آنے والی تھی سو فٹافٹ تیار ہو گیا۔ ساری تیادی کے دوران جو خیالات تھے وہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے(عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے)۔
مجھے لینے کے بعد ایک اور ساتھی علی سیدین کو لیا اور ہوائی اڈے پہنچ گئے۔ پرواز شروع ہوئی تو اندازہ ہوا کہ سب کے سب زائرین تھے جنہوں نے آگے کربلا اور شام بھی جانا تھا۔ ان دنوں حالات قدرے بہتر تھے۔ کوئٹہ پہنچے تو پرواز مسافروں سے مکمل بھر گئی۔ مشہد میں امام رضا علیہ السلام کا روضہ ہے۔ لینڈنگ سے کچھ دیر پہلے ایک انجنیئر صاحب نے پوچھا کہ اگر میں اور علی زیارت کے لئے جانا چاہتے ہیں۔ دلی مراد بر آئی اور کیا کہتے۔ چنانچہ مشہد اترنے کے بعد زمینی عملے کا ایک فرد جس کی شکل ہو بہو اداکار جمال شاہ جیسی تھی، ہمارے پاسپورٹ جمع کر کے لے گیا اور مطلوبہ ادارے کی اجازت لے کر آ گیا۔ ہماری ٹائیاں اتروائیں، ٹیکسی کروائی اور دس منٹ میں روضے پر پہنچ گئے۔ ہم کل چھے افراد تھے جن میں ایک ساتھی خاتون بھی شامل تھیں۔ ان کو اس ایرانی جمال شاہ نے ایک بڑی سی چادر لا دی اور ہم سب واپس آنے کے لئے ایک جگہ منتخب کر کے اندر چلے گئے۔ چونکہ نماز ختم ہو چکی تھی اس لئے سب لوگ واپس نکل رہے تھے سو رش بہت تھا۔ وسیع و عریض صحن عبور کیا اور عظیم الشان حرم میں جا پہنچا۔ جو دعائیں یاد تھیں جلدی جلدی دہرائیں اور واپس طے شدہ جگہ پر پہنچ گیا۔ سب آ گئے لیکن ہماری ساتھی خاتون نہ پہنچیں۔ بڑی پریشانی ہوئی کہ پرواز میں تاخیر نہ ہو جائے مگر شکر خدا کا کہ دس منٹ تک وہ بھی آ گئیں۔ جہاز میں پہنچے تو تمام مسافر آ چکے تھے کیونکہ عملے کے کچھ ارکان جہاز پر ہی رہ گئے تھے۔ میرے سارے دن کے کوسنے شکر اور حیرت میں بدل گئے تھے کہ انسان سوچ کیا رہا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہو کیا جاتا ہے۔
بڑی خواہش تھی مقامات مقدسہ کی زیارت کرنا جن میں اول نمبر پر تھا خانہ کعبہ اور روضہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جانا۔ پھر وہ بھی پوری ہوئی۔ پرواز پر چار دوست بھی ساتھ تھے۔ رات میں جدہ پہنچے۔ پروگرام طے پایا کہ صبح چونکہ جمعہ ہے اس لئے جلدی نکلا جائے مکہ کے لئے تاکہ عمرہ کے بعد جمعہ نماز مل جائے۔ ایک ٹیکسی کروائی۔ عشرہ عشرہ ( دس) ریال طے پایا کرایہ چنانچہ چالیس ریال میں ٹیکسی پڑی۔ احرام سنبھالنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں بتا رہا ہوں میں آپ کو۔ اس طرح آپ اپنے ایمان کو سنبھالیں تو قسم خدا پاک کی آپ سے اچھا کوئی مسلمان نہ ہو۔ خیر گاڑی میں بیٹھ کر سب نے چھوٹی چھوٹی عمرہ گائیڈز نکال لیں اور سب حاجی بن بیٹھے۔ ہر طرف خشک سنگلاخ پہاڑ اور بنجر زمین دیکھ رہا تھا اور خدا کی اس قوم پر عنایات کا موازنہ کر رہا تھا کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور گاڑی بے قابو ہونے لگی۔ شکر ہے آس پاس کوئی گاڑی یا ٹرک نہیں تھا ورنہ خانہ خدا کی بجائے خدا کے پاس ڈائیرکٹ پہنچ جانا تھا۔ ڈرائیور منجھا ہوا تھا، گاڑی قابو کر گیا۔ روڈ کی سائیڈ میں گاڑی لگائی اور نیچےاترے تو دیکھا گاڑی کے پچھلے الٹی طرف کے ٹائر کے پرخچے اڑے ہوئے ہیں۔ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا ٹائر۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور دل میں سرگوشی کی یا خدا بڑی مہربانی بس اپنے گھر زندہ بلا لے مولا۔
آخر کار پہنچ گئے۔جہاں پہلی نظر پڑی وہیں رک کر ساری دعائیں دہرا دیں کیونکہ سن رکھا تھا اس طرح قبولیت کے چانسس زیادہ ہوتے ہیں۔ حجر اسود کو دور سے دیکھا کیونکہ نہ تو میں پہلوانوں کے خاندان سے ہوں اور شہزادہ بھی صرف اپنی امی کا ہوں کسی سلطنت کا نہیں کہ میرے لئے اس جم غفیر کو منتشر کیا جاتا جو ہو بہو ان سرداروں کی طرح لگ رہا تھا جو رسولؐ خدا کے فیصلہ دینے سے پہلے اس بات پر جھگڑتے تھے کہ ہمارا قبیلہ بڑا ہے یہ پتھر ہم لگائیں گے اور حجر اسود کو ایسے چپکا ہوا تھا جیسے سب کے گناہ آج ہی معاف ہو جانے ہیں۔ طواف پورا کیا۔ جناب ابراہیم علیہ السلام کے نقش پا ملاحظہ کیئے اور ان کی سیدھ میں کھڑے ہو کر نفل ادا کیئے۔ پھر سعی کی جو کہ واقعتا سعی ہے۔ سات چکر صفا و مروہ کے بیچ کوئی آسان کام نہیں۔ خیر اب تو فرش بھی سنگ مرمر کا ہے، ٹھنڈا۔ چھاؤں بھی ہے۔ بی بی حاجرہ سلام اللہ علیہ اور جناب اسماعیل علیہ السلام کو یاد کیا۔ آب زم زم پیا اور خدا کا شکر کیا۔ جمعہ نماز پڑھی۔ صاف شفاف سفید فرش پر ایستادہ سیاہ پوش چوکور عمارت دیکھتے ہی دیکھتے اتنی بڑی لگنے لگی کہ اپنا آپ کم سے کمتر محسوس ہونا شروع ہو گیا۔ گناہ یاد آنے لگے اور خدا برتر سامنے کھڑا محسوس ہونے لگا۔ عظمت و ہیبت سے دل کو بیک وقت سامنا تھا۔
عصر کا وقت ہو گیا۔ نماز پڑھ کر خیال آیا حجر اسود کو ٹچ کرنے کی ایک ٹرائی تو بنتی ہے۔ بس مختصر آپ کے لئے کہ ادھر آنا اپنی مرضی سے ہوتا ہے لیکن واپسی کا طریقہ خودکار ہوتا ہے۔ اللہ اکبر کا نعرہ مار کر اس ہجوم میں انٹری ماری۔ کچھ ڈھائی من کا ایک پاوں میرے الٹے پاوں کی چھوٹی انگلی پر پڑا، بالائی احرام گردن کے گرد لپٹا، ایک ہاتھ سے ذیلی احرام پر گرفت اور دوسرا ہاتھ حجراسود کے اندر گھوما اور اگلے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو ہجوم سے باہر پایا۔ پاوں کی انگلی فریکچر ہوتے ہوتے بچی لیکن سال بھر اس میں درد رہا۔ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ حجر اسود پر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
واپسی کے لئے ٹیکسی ڈھونڈنے لگے تو عشرہ ریال پر کوئی مان نہیں رہا تھا۔ ایک گاڑی میں سے لڑکے نے سر نکالا اور کہا جدہ جدہ جدہ دس ریال دس ریال۔ میرا دوست کہنے لگا دس نہیں عشرہ ریال۔ میں نے اس کے کان میں کہا ماما عشرہ وی تے دس نوں کیندے نیں ( عشرہ بھی تو دس کو کہتے ہیں) چنانچہ جلدی سے اسی گاڑی میں بیٹھ کر ہوٹل روانہ ہو گئے۔
- اسبابِ بغاوت اردو - 07/11/2024
- سر سلیم اور سر خالد سعید، باقی سب خیریت - 06/10/2024
- آپ کا پیکج ہے؟ - 19/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).