کتا ب میلے تو ہیں، پڑھنے والے کہاں ہیں؟ – مکمل کالم


نفسیات کی ایک اصطلاح ہے جسے انگریزی میں  confirmation bias کہتے ہیں، یہ ایک طرح کا مغالطہ ہے جس کے زیر اثر انسان اپنی خواہشات اور اعتقادات کے تحت رائے قائم کرکے اُس پر جم جاتا ہے، ایسا آدمی پہلے سے ہی اپنے دماغ میں کسی نظریے یا تصور کو سچ مان لیتا ہے اور جب کسی صورتحال میں اُس کے پسندیدہ نظریات یا تصورات کی بظاہر تصدیق ہوتی نظر آتی ہے تو وہ اِن خیالات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے اپنی سوچ میں مزیدراسخ ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کا خیال ہے کہ عورتیں بری ڈرائیور ہوتی ہیں، ایسا شخص جب سڑک پر کسی عورت کو غلط گاڑی چلاتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اپنی اِس رائے پر جم جاتا ہے کہ واقعی عورتیں بری ڈرائیور ہوتی ہیں مگروہ شخص بیہودہ ڈرائیونگ کرنے والے لاتعداد مردوں کو دیکھ کر یہ رائے قائم نہیں کرتا کیونکہ اُس کے دماغ میں عورتوں کی بری ڈرائیونگ والی بات بیٹھی ہے نا کہ مردوں کی!

ایک مثال اور لے لیں۔ چند دن پہلے لاہور میں کتاب میلہ ہوا، ہم بھی دوستوں کے ہمراہ وہاں گئے، گاڑی لگانے کی جگہ نہیں تھی، کھوے سے کھوا چھل رہا تھا، لوگ بال بچوں سمیت پہنچے ہوئے تھے، دھڑا دھڑ کتابیں خرید رہے تھے، ہال میں اتنا رش تھا کہ سرد ی کے موسم میں گرمی لگ رہی تھی، کتاب دوستی کا یہ ماحول دیکھ کر بہت فرحت ہوئی اور میرے دوستوں نے رائے قائم کر لی کہ لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے، لوگ اچھی کتابیں خریدناچاہتے ہیں، جنہیں اِس بات میں کوئی شک ہو وہ کسی بھی کتاب میلے میں جا کر لوگوں کا جذبہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ میرے جن دوستوں کا یہ کہنا تھا وہ خود لکھاری ہیں اور ان کے دل کے کسی گوشے میں یہ خواہش پنہاں ہے کہ لوگوں کو کتابیں پڑھنی چاہییں، سو کتاب میلے میں رش دیکھ کر انہوں نے یہ رائے قائم کر لی کہ لوگ کتابیں پڑھتے ہیں، اسی کو confirmation biasکہتے ہیں۔

 لاہور شہر کی آبادی سوا کروڑ کے قریب ہے، کتاب میلہ پانچ دن جاری رہا، میں دو دن وہاں گیا، جمعرات اور اتوار، جمعرات کو پہلا دن تھا، چھٹی بھی نہیں تھی سو بالکل رش نہیں تھا، پارکنگ آرام سے مل گئی۔ اتوار کو بہت لوگ تھے، حقیقت میں میلہ لگ رہا تھا، اگر ہم فرض کر لیں کہ دو ہزار بندہ بھی اس وقت موجود تھا اور پورے دن میں پانچ سے دس ہزار افراد نے شرکت کی تو بھی یہ تعداد آبادی کے اعتبار سے کچھ نہیں، خاص طور سے لاہور جیسے نسبتاً پڑھے لکھے شہر میں جہاں اب بھی پرانے وقتوں کے دو چار ادیب مل جاتے ہیں۔ اِس بات کو پرکھنے کا دوسرا پیمانہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کسی بہترین ادیب کی کتاب یہاں کتنی تعداد میں فروخت ہوتی ہے، پاپولر فکشن لکھنے والوں کی کتابیں بھی چند ہزار سے زیادہ نہیں بکتیںجبکہ امریکہ، یورپ میں سنجیدہ موضوعات پر بیسٹ سیلر کتابیں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں، آبادی کا

موازنہ آپ خود کر لیں۔ اور پھر امریکہ کیوں جائیں، بغل میں ہندوستان ہے وہاں سے ہو آئیں، بقول اپنے غاز ی صلاح الدین سال بھر میں دہلی میں اتنی کتابیں شائع ہوتی ہیں جتنی پورے پاکستان میں نہیں ہوتیں۔ چلیے اسے بھی چھوڑیں، آپ لاہور، کراچی کسی بھی شہر کے اردو بازار چلے جائیں، وہاں نصابی کتابیں بھی بھارتی لکھاریوں کی ملیں گی۔ ایک بہانہ ہم نے ٹیکنالوجی کا بھی رکھا ہوا ہے کہ جب سے انٹر نیٹ اور موبائل فون آیا ہے لوگ کتاب سے دور ہو گئے ہیں، اس سے بودی دلیل ممکن نہیں کیونکہ پوری دنیا جو کتابیں پڑھتی ہے ٹیکنالوجی کے استعمال میں ہم سے آگے ہے۔ اب بھی اگر کسی کویقین نہیں کہ ہم کتابیں نہیں پڑھتے تو اپنے ملنے جلنے والوں کا ایک سروے کر لے اور دیکھے کہ کتنے لوگو ں کے گھرو ں میں کتابیں موجود ہیں، کیا ہم نے گھر میں کوئی چھوٹی موٹی لائبریری بنا رکھی ہے، کیا ہم ایک دوسرے کو کتاب تحفے میں دینا پسند کرتے ہیں؟

میں تو اب یہ روایت شروع کرنے لگا ہوں کہ کسی کو تحفہ دینے کے لیے کیک، مٹھائی یا پرفیوم کی بجائے کتاب خرید کر دی جائے، اِس بات کا خیال مجھے ایک دوست نے دلایا، وہ میرے گھر کھانے پر آیا تو میرے پسندیدہ موضوع کی کتاب ساتھ تحفے میں پیش کی۔ ایک چھوٹا سا واقعہ اورسن لیں۔ کچھ عرصہ پہلے کسی ادارے نے اساتذہ کے ایک گرو پ کے ساتھ میری گفتگو کا اہتمام کیا، موضوع تھا کہ ہمیں کیسے سوچنا چاہیے، بات شروع کرنے سے پہلے میں ا ن اساتذہ سے پوچھا کہ آپ نے سال بھر میں نصابی کتب کے علاوہ کون سی کتاب پڑھی ہے، جواب میں بیس میں سے بمشکل تین پروفیسروں نے کسی کتاب کا نام بتایا، واضح رہے کہ یہ سب لوگ پی ایچ ڈی تھے اور یہ سوال میں اکثر اپنے لیکچر اور پریزنٹیشن سے پہلے پوچھتا ہوں، ہمیشہ ایک ہی جواب ملتا ہے۔

بات سیدھی ہے کہ ہم کتاب نہیں پڑھتے، کتاب ہمارے کلچر کا حصہ نہیں بن سکی، وجوہات اِس کی بہت سی ہیں، ایک وجہ تو یہ ہے کہ انگریز جب ہندوستان آئے تو دو سو سال بنگال میں رہے، ڈیڑھ سو سال یو پی، دہلی وغیرہ میں رہے اورجو علاقے آج پاکستان میں شامل ہیں (بلوچستان کو چھوڑ کر)وہاں انگریز سو سال رہے، اسی حساب سے ان علاقوں میں انگریز ی روایات پروان چڑھیں اور اُن کا اثر قائم رہا، پڑھنے لکھنے کو ہی لے لیں، اگر انگریز سرکار نے کلکتے میں لڑکیوں کا کوئی کالج قائم کیا تھا تو ویسا کالج پاکستانی علاقے میں سو سال بعد بنا ہو گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بٹوارے کے وقت لاہور فلم، ادب اور ثقافت کا مرکز تھا، اردو کے مایہ ناز ادیب، لکھاری، فلم ساز، ہدایتکار، گلوکار اِس شہر میں تھے مگر ان میں سے بیشتر ہجرت کرکے بھارت چلے گئے، یہی حال دیگر شعبوں میں بھی ہوا، پنجاب میں اچھے جج، وکیل، استاداور پڑھے لکھے لوگ زیادہ تر ہندو تھے، ان کی اکثریت سرحد پار کر گئی جبکہ وہاں سے آنے والے ایسے قابل لوگوں کی تعداد بہت کم تھی، اُدھر یو پی سے بھی جو لوگ پاکستان ہجرت کرکے آئے بے شک وہ پڑھنے لکھنے والے تھے مگر مجموعی طور پر پاکستانی علاقوں سے جانے والے پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی جو بھارت سے یہاں آئے تھے۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ جو ادیب بٹوارے کے وقت لاہور آ گئے ان کی وجہ سے ہی علم و دانش کی روایت اِس شہر میں قائم ہوئی اور انہی کی مرہون منت یہ شہر کئی برس تک ادب کا گہوارہ بنا رہا۔ جو نام اِس وقت میرے ذہن میں آ رہے ہیں اُن میں منٹو، انتظار حسین، ظہیر کاشمیری، حمید اختر، حفیظ ہشیار پوری، منیر نیازی، سیف الدین سیف، وقار عظیم اور اشفاق احمد جیسے لوگ شامل ہیں۔ یہ ہیرے ہمارے پاس ضرور آ گئے مگر عوامی سطح پر جو ہجرت ہوئی اس میں ہم گھاٹے میں رہے اور یہی وجہ ہے کہ ادیبوں کی اِس کہکشاں کے باوجود ہمارے ہاں کتاب پڑھنے والی آبادی وقت کے ساتھ گھٹتی چلی گئی۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ، کتاب میلے کا لطف مگر بہت آیا، جو کتابیں میں نے خریدیں اُن میں ڈارون کی شہرہ آفاق کتاب The Origin of Species شامل ہے، اسے کبھی مکمل نہیں پڑھ سکا اس مرتبہ ختم کرکے دم لوں گا، اِس کے علاوہ اردو کے بہترین افسانوں کا انتخاب آصف فرخی نے کیا ہے، آکسفورڈ کی شائع کردہ یہ پوری سیریز پڑھنے والی ہے، کچھ غیر ملکی ناولوں کے تراجم لیے ہیں، نطشے کی Thus Spoke Zarathustraپڑھنے کا اراد ہ ہے۔ کچھ کتابیں ایسی بھی خرید لیں جنہیں گھر پہنچ کر سونگھا اور پرے رکھ دیا، دقیق موضوعات پر کلاسیکی لکھاریوں کی تحریریں تھیں جو مجھ سے ہضم نہیں ہوئیں، ویسے بھی آج کل میں ڈائٹ پر ہوں!

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments