میں استاد شوکا کا فین کیسے ہوا؟


”جو میرا ہو سکتا ہے وہ کسی اور کا بھی ہو سکتا ہے۔”

یہ ڈائیلاگ نہ تو کسی ہندی فلم یا پاکستانی ڈرامے کا ہے۔ اور نہ ہی یہ کسی ناول یا کہانی میں کسی مشہور رائٹر نے لکھا ہے۔ بلکہ اس ڈائیلاگ کا خالق استاد شوکا ہے۔ اب آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ یہ استاد شوکا کس بلا کا نام ہے تو چلئے آپ کی اس مشکل کو آسان کر دیتے ہیں اور آپ کو استاد جی کے بارے میں بتاتے ہیں۔

تو قصہ کچھ یوں ہے کہ پچھلے دنوں میں جب بال کٹوانے کے لیے اپنے ہئیر ڈریسر کے پاس گیا تو وہاں پر مجھے استاد شوکا سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ استاد شوکا کا پورا نام شوکت علی ہے لیکن سب ان کو پیار سے استاد شوکا کہتے ہیں۔ تعلق پتوکی سے ہے۔ پڑھے لکھے بالکل بھی نہیں ہیں۔ اس لیے بچپن سے ہی کپڑے سینے کے کام میں لگ گئے اور آج ان کو اس کام میں بیس سے پچیس سال ہوگئے ہیں۔

میری توجہ ان کی طرف اس وقت مبذول ہوئی جب انھوں نے وہاں پر لگے غمگین گانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے رونے والے گانے لگائے ہوئے ہیں۔ جس پر وہاں پر کام کرنے والے ایک لڑکے نے جواب دیا کہ استاد جی ”اسی کی کرئیے، ساڈے دل ٹُٹے ہوئے نیں۔ “ (استاد ہم کیا کریں، ہمارے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔) جس پر استاد شوکا نے ہنس کر یہ ڈائیلاگ بولا۔ ”جو میرا ہو سکتا ہے وہ کسی اور کا بھی ہو سکتا ہے۔ “ بس اس بات کو اگر سمجھ جاؤ تو ساری گتھی سلجھ جائے۔

جس پر اس لڑکے نے کہا کہ استاد جی، اس کو تھوڑا سمجھا دیں۔ تو استاد شوکا پنجابی میں یوں گویا ہوئے ”میرا پتر اہندا مطلب اے کہ اگر کوئی تیرے نال سی، تینوں پسند کردا سی، اوہنوں کوئی ہور وی چنگا لگ سکدا اے، تے جے انج ہو جائے تو اوہنوں جان دیو میرا سوہنا، کیوں جے محبت وچ زور زبردستی نئیں ہندی، “ (بیٹا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ تھا، تمہیں پسند کرتا تھا، اسے کوئی اور بھی اچھا لگ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو اسے جانے دو۔ کیونکہ محبت میں زور زبردستی نہیں ہوتی۔)

اس پر گفتگو میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے میں نے استاد شوکا کو مخاطب کر کے کہا کہ استاد جی پچھلے دنوں ایک ڈرامہ چل رہا تھا جس کا نام تھا ”میرے پاس تم ہو“، دیکھا تھا آپ نے؟

استاد جی نے اثبات میں سر ہلایا۔ تو میرا اگلا سوال تھا کہ اس میں جب بیوی اپنے شوہر کو چھوڑ کر کسی اور مرد کے ساتھ چلی جاتی ہے تو اس کا خاوند اس کہ اس رویہ پر اسے دو ٹکے کی عورت کہہ دیتا ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے۔ اس کے جواب میں استاد جی نے کہا ”باؤ جی، اوہ خلیل الرحمان تے جھلّا اے، اوہنوں ایناں ای نئیں پتا کہ جندے نال بندہ تھوڑا جیا وی ٹریا ہووے، اوہ اگر کسے ہور ول ٹر وی جاوے، اوہنوں مندا نیئں بولی دا“۔ (بابو وہ خلیل الرحمن تو سودائی ہے۔ اسے اتنا بھی نہیں معلوم کہ اگر کسی کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزار رکھا ہو تو اسے کسی اور کے جانے پر برا بھلا نہیں کہتے۔)

اس کے بعد میں نے ان سے ایک اور سوال کیا کہ اگر وہ کچھ عرصہ یا سالوں بعد واپس آنا چاہے تو اسے قبول کرنا چاہیے یا نہیں؟ اس پر استاد شوکا نے کہا ”باو، جے تے اوہندے نال سچی پریت اے ناں، تے فیر نہ تے اوہندے جاون نال پریت گھٹنی چاہی دی اے، تے ناں ای واپس آن نال، دونویں بانہواں اگے کر کے اوہنوں جی آیاں نوں آکھو“۔ اس پر وہاں پر موجود دو، تین لوگوں نے کہا کہ استاد شوکا جی، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ کہہ پہلے وہ بیوفائی کرے اور پھر واپس آجائے۔

تو انھوں نے کہا ”اوئے جھلیو، ایہہ راز دیاں گلاں نیں تے توہاڈی سمجھ وچ آن آلیاں نئیں، ایس لئی تسی ایہناں تے اپنا دماغ نہ کھپاؤ تے کم تے دھیان دیو“۔ میں نے استاد شوکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھیں کہا کہ میں تو آپ کی ان کمال باتوں کی وجہ سے آپ کا فین ہو گیا ہوں۔ جس پر وہ یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ گئے کہ ”باو، تجربہ بندے نوں بہت کجھ سکھا دیندا اے“۔

میں بھی وہاں سے یہ سوچتے ہوئے نکل پڑا کہ بعض دفعہ لوگ اتنی اتنی موٹی کتابیں پڑھ کر اور ڈگریاں لے کر بھی شعور سے عاری ہوتے ہیں۔ اور کچھ استاد شوکا جیسے ان پڑھ لوگ، جنھیں ہم جاہل اور گنوار کہہ دیتے ہیں، زندگی کی گتھیوں کو اس قدر آسانی سے اپنے چھوٹے چھوٹے جملوں میں بیان کر کے سلجھا دیتے ہیں۔ جن کے بارے میں ہم جیسے پڑھے لکھے لوگ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments