پھنس گئے باس!


باس کے اوپر چائے پانی وغیرہ گرنے یا گرانے کے واقعات سے تو آپ یقیناً محظوظ ہوتے رہیں ہوں گے۔ باس کی بچوں جیسی ضد و فرمائش سے بھی عاجز رہتے ہوں گے۔ باس جیسی عفریت سے نمٹنا کسی طور آسان نہیں۔ کچھ سخت قسم کے باس کا قصہ تو الگ، نرم مزاج باسز کے متعلق ماتحتوں کی رائے بھی کچھ زیادہ قابل قدر نہیں۔ محبت و نرمی کا برتاؤ رکھنے والے صاحب کے ماتحت اپنے باس کا تعارف ہم سے کچھ یوں کرا رہے تھے۔ جناب ہمارے باس تو ”مٹی کھانے سپ“ (مٹی کھانے والے سانپ مطلب کیچوے ) ہیں۔

مطلب باس ہمیں کسی آنکھ نہیں بھاتا۔ ادھر سخت مزاج باس کی بات کریں جیسے ہی ان کی آمد ہو تو احباب بھی ایسا تاثر پیش کرتے ہیں کہ صاحب کی بارعب شخصیت سے وہ سہمے ہوئے اور شدید قسم کے خوف میں مبتلا ہیں۔ یار لوگوں کا اصرار ہے۔ کہ مسکین صورت باس کی شخصیت کو زیر کرنے کا کارگر نسخہ ہے۔ کچھ کھلاڑی لوگ باس کو خوشامد کے پیڑ پر چڑھانے کے ہنر میں یکتا ہوتے ہیں یہی لوگ باس کی قربت اور مہربانیوں کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ خدا جانے ہم پر یہ تہمت کیوں زبان زد عام ہو چلی۔ کہ ہم باس کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ یقین مانیں جتنی ”خاطر داری“ انا کے ان پُتلوں کی ہم سے سرزد ہوتی ہے۔ ہم تو باس کی ”خاطر“ داری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتے۔

باس لوگ ذرا غصے کے تیز ہوتے ہیں اول فول بکنا یا شدید غصہ میں منہ سے جھاگ نکالنا بھی صاحب لوگوں کی نشانی ہے۔ باس کو صفائی ستھرائی کا بخار ذرا زیادہ تیز ہوگیا ہر ڈیپارٹمنٹ کو نہلانے دھلانے کے احکامات جاری فرما دیے اور خود چیکنگ کرنے کا عندیہ بھی دے ڈالا۔ صبح سب سے پہلے آغاز ہمیں سے ہوا باس صفائی ستھرائی کو سراہتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ خدا جانے کس ناہنجار نے فرش کی زیادہ بہتر چمک یا صفائی کی خاطر کچھ آئل بہا دیا تھا کہ صاحب قدم رکھتے ہی دھڑام سے فرش پر گرے پڑے تھے۔ سہارا دیکرصاحب کو گھر واپس روانہ کیا۔ فرش کو پھسلن زدہ بنانے والے ہنر مند کو ہم نے داد اور انعام سے نوازا۔ اب مدت ہوئی باس کو دوبارا اس شدید صفائی جیسی بیماری سے خوب افاقہ ہے۔

باس ہفتہ میں ایک آدھ دن منہ سے آگ نکالنے جیسے فن کا مظاہرہ بھی فرماتے ہیں۔ ایسے غصے سے بچنے کے لئے پھر سب اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔ جھاگ نکالنے والی علامات کے ظاہر ہوتے ہی ہم نے صورت حال سے نمٹنے کے لئے ایک باقاعدہ حل ترتیب دیا کہ باس کچھ وقت تنہائی میں گزار سکیں۔ ہم نے واش روم کے لاک کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا۔ کہ باس واش روم میں داخل اپنی مرضی سے ہوں اور ان کی باہر آمد ہماری مسیحائی کے مرہون ہو۔ ہم نے حاتم کی قبر پر یہ لات کم و بیش ایک ڈیڑھ گھنٹہ قید تنہائی کی سزا کے بعد ماری۔ حواس باختہ پسینے میں شرابور صاحب کی نجات کے روح رواں ہمیں اور ہماری دانائی کو قرار دیتے ہیں۔ جس پر باس آج تک ہمارے اس قید تنہائی سے نجات دلانے کے مشکور ہیں۔

باس آج کل نیا خریدا کافی میکر دفتر میں سجائے شان سے براجمان ہیں۔ جس سے خوش ہوں تو اس بے چارے کو باس کی پسند اور باس کے ہاتھوں کی بنی ہوئی کافی زہرمار کرنا پڑتی ہے۔ کافی کی تعریف کرنے والے کو یہ سعادت دن میں دوچار بار برداشت کرنا پڑتی ہے۔ تعریف نہ کرنے والا کافی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ایک ہم خوش قسمت ہیں۔ جو کہ صاحب کی اس عنائیت سے محفوظ و ممنون چلے آ رہے ہیں۔ کافی کے باذوق و شوقین حضرات آزردہ نہ ہوں۔ آپ احباب چونکہ باس کی شخصیت سے ناآشنا ہیں۔ ہم کچھ معقول و مختصر تعارف دہرائے دیتے ہیں۔ باس بولتے ہوئے ساتھ میں ہلکا پُھلکا چھڑکاؤ بھی کرتے جاتے ہیں۔ ایسی چھڑکاؤ دار کافی سے خدا سب کو محفوظ رکھے۔

باس کو نمازیں پڑھنے کا شوق ہوا تو مسجد کے امام کو حکم ہوا کہ آپ فرائض کی باجماعت ادائیگی میں مجھے ضرور شامل رکھا کیجئے۔ یہ سلسلہ بھی خوب چلتا رہا۔ ایک روز نماز عصر کی ادائیگی میں تاخیر طویل تر ہو چلی باس کو امام صاحب نے یاد دہانی بھی سہ بار کروادی۔ آخر طویل انتظار کے بعد باس کے بغیر ہی نماز عصر ادا کردی گئی۔ جب باس تشریف لائے اور دیکھا کہ نماز تو ادا ہوچکی۔ مگر باس بھی آخر باس تھے۔ امام صاحب کو حکم ہوا کہ نماز عصر سب لوگ دوبارہ جماعت کے ساتھ ادا کریں گے یوں باس کے کہنے پر نماز لوٹائی گئی۔

”باس رے باس تیری کون سی کل سیدھی“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments