اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پرایک دن!


کاش کہ ہم ڈیپارچر لاونج میں کچھ اور لیٹ آتے اور گھنٹہ بھر مزید کافی شاپ کی کرسیوں پر سکون سے بیٹھے رہتے! مگر ایسا ہوتا تو ضرور ہم جلدی جہاز کے اندر نہ پہنچ پاتے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ مجھے بھی اوروں کی طرح جہاز میں فٹا فٹ پہنچ جانے کی جلدی تھی۔ جہاز پر لیٹ پہنچنے کا سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ میں اکیلی خاتون اپنے بچوں کے ساتھ سفر کرتے اپنا سفری سامان چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں سارے جہاز کے مختلف خانوں میں بانٹے پر مجبور ہو جاتی۔

کیوں؟ کیوں کہ پاکستان ائیر لائینز میں اکثر پاکستانی مسافر پاکستانی سر زمین سے پرواز بھرتے وقت سب سے پہلے اندر گھس کر سب سے پہلے سٹوریج پر قبضہ کر لیتے ہیں اور ایسا کرتے وہ اکیلی خواتین یا فیملیز کے لئے بھی کسی قسم کا کوئی لحاظ یا مروت کا مظاہرہ عموماً نہیں کرتے۔ مگر اپنی طرف سے گیٹ کے قریب ترین بیٹھنے کی کوشش میں جلد آنے سے بھی ہمیں آسانی تو کوئی نہ ہوئی البتہ یہ ہوا سورج کے ساتھ گرما گرم انٹرنیشنل روانگی والے لاوینج میں جہاں نہ ائیر کنڈیشنگ کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی نہ فل سائز کھڑکیوں پر پردے ہی تھے تو سایہ کی کوئی جگہ مہیا نہ تھی۔

تو میرے جیسے ذرا سی دھوپ سے ماییگرین کا شکار ہو کر سر اور آنکھیں ٹیڑھی کر لینے والے لوگ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہونے پر مجبور تھے۔ جن کرسیوں پر خوش قسمتی سے کسی نہ کسی طرح سایہ دستیاب تھا وہاں پر پاکستان کے کڑیل جوان سینہ اور ٹانگیں پھیلائے براجمان تھے اور وہاں سے ہلنے کا قطعی کوئی ارادہ نہ رکھتے تھے۔

سو یہ آرٹیکل لکھنے اور چند صفحات کی کتاب پڑھنے کی خاطر میں نے پورا گھنٹہ عوام الناس کے سامنے اونچی لمبی ہو کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو کر گزارا۔ اگر بیٹھنے کو کوئی جگہ ملی بھی تو ناخوشگواری کا باعث بنی کہ پاکستان کی عظیم الشان مردانہ برادری ٹانگیں بازو کھول کر پھیلا کر بیٹھنا پسند کرتی ہے کیونکہ یہ ان کا پیدائشی حق بھی ہے اور ان کی مردانگی میں بھرپور اضافے کا باعث بھی ہے چاہے اس سے ساتھ بیٹھی چند ایک خواتین کتنی ہی بدمزہ ہو رہی ہوں۔

تو کل تک ہم اپنے گھر کے کمرے میں بیٹھے ٹھٹھر رہے تھے سردی سے آج انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے عالمی معیار کے انٹرنیشنل ڈیپارچر لاونج میں نہ بیٹھے ہوتے تو کیسے جان پاتے کہ باہر سورج کتنے خوفزدہ موڈ میں ہے۔ شکر ہے کہ بیگ میں ماییگرین کی گولی اور بچوں کے لئے پینا ڈول موجود ہے۔ ورنہ عالمی سفر کے عالمی کرایے دینے کے باوجود آپ کی سہولت کی گارنٹی دینے والا اس پوری ائیرپورٹ کی عمارت میں کوئی نہیں۔

اور یہ تو بتایا نہیں کہ ہم اس ڈیپارچر لاونج تک پہنچے کس طرح۔ تو وہ میرا قیمتی ڈنر سیٹ جو میری خانہ بدوشی کے ساتھ خانہ بدوش ہو چکا، پھر سے واپسی کے لئے تیار تھا تو تمام عورتوں کی طرح مجھے بھی اپنے برتنوں کو سنبھال سنبھال کر رکھنے کی عادت ہے۔ ساری رات لگ کر میں نے ایک ایک پلیٹ الگ الگ کر کے پیک کی اور ایک ڈبے میں اپنا پورا ڈنر سیٹ اتنی نفاست اور مہارت سے چھ ماہ کی اخبارات ٹھونس کر پیک کیا تا کہ حفاظت سے اپنے گھر تک پہنچ سکے آخر اخبارات بھی کبھی کبھار ڈھنگ کے کام تو آ ہی جاتی ہیں۔

مگر انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر ماشاءاللہ سے ایسے کمال کے سکینر موجود تھے کہ ان کی مشینیں میرے برتن پہچان نہ سکیں اور آڈر ہوا کہ گتے کا کارٹن کھول کر دکھایا جائے۔ چناچہ چھریاں چاقو تیز کر کے میرے کارٹن کی ساری رگیں کاٹ دیی گئیں اور ایک ایک پلیٹ ایک ایک نمک دانی نکال نکال کر اسے بجا بجا کر دیکھا گیا، سوپ باول، کا ڈھکن کھول کر اس میں گھسائی تمام اخباریں نکال کر الٹ کر سوپ برآمد کرنے کی کوشش کی گئی، اور تو اور وہ ایک درجن کینو جو میں ڈبے میں ڈالکر اس لئے لیجا رہی تھی کہ گھر میں بچ گئے تھے تو سوچا گھر میں کیڑوں کے لئے کیوں چھوڑے جائیں تو خالی جگہ میں ایک ڈبے میں ڈالکر ساتھ پیک کر لیا تھا۔

ان میں سے بھی ایک ایک کینو کو اٹھا اٹھا کر گھما گھما کر دیکھا گیا۔ اور یہ ساری کارروائی ایف آئی اے کے تیز طرار کارندوں کی ہمراہی میں میرے ساتھ تب ہوئی جب میں اپنی بارہ سالہ بیٹی اور آٹھ سالہ بیٹے کے ساتھ سفر کر رہی تھی۔ عالمی سطح کے ان اعلیٰ انتظامات پر جس قدر عش عش کر سکتے تھے کر لیا اور جس قدر صبر کے گھونٹ بھر سکتے تھے بھر لئے کہ یہاں پر مسافروں کو گردنوں سے پکڑ کے ان کے بال نوچ دینے کے رواج ہیں تو کل کے اخبار پر لوگوں کی تفریح طبع کے لئے ہم کسی بھی صورت اپنی گردن پیش کرنے سے گریزاں تھے۔ پھر لوگ کہتے ہیں باہر رہنے والے لوگ بڑے بدتمیز اور گھمنڈی ہوتے ہیں۔

ہاں یہ بتانا تو بھول ہی گئی کہ تھک کر جو ابھی ڈیپارچر لاونج کی کرسی پر بیٹھی تو میری پچھلی کرسی پر بیٹھے جری جواں نے کال ملا کر اپنا رخ ہماری طرف یعنی پیچھے کی طرف پھیر لیا ہے جیسے وہ مجھے سنا کر کال کرنا چاہ رہا ہو۔ اگرچہ میں قطعاً کوئی ایسا دعویٰ نہیں کرتی کہ اس کی مجھے ہراساں کرنے کی نیت ہے وہ یقینا بہت ہی معصوم سا کوئی بندہ ہے اور پوری دلجمعی سے اپنے کام میں مصروف ہے مگر مجھے اپنے ذہنی سکون کے لئے پہلے تھوڑا آگے ہو کر بیٹھنے اور بلآخر اٹھ کر بیٹے کی سیٹ پر بیٹھنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔

اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے یقینا یہ سراسر میرے ہی دماغ کا فتور ہے۔ ہو سکتا ہے ایک مشہور بیانیے کے مطابق ہماری صورتیں یا کپڑے اس صورتحال کے ذمہ دار ہوں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جب تک کوئی آپ کی بازو پکڑ کر نہ کھینچ لے تب تک آپ ایک تھپڑ تک نہیں مار سکتے کہ آپ کے پاس آنکھوں اور تاثرات اور باڈی لینگویج سے ہراساں ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔ مجھے پورا یقین ہے پاکستان میں عورت کی بے تحاشا عزت ہے اور اسے ہر کام اور چیز کی پورے ذہنی سکون سے اپنے حساب سے کرنے کی پوری آزادی ہے چاہے وہ سرکاری ائیر لائن سے سفر ہی کیوں نہ ہو۔

اور ہاں یہ بات تو میں بتانا ہی بھول گئی کہ آپ عورت یا فیملی ہونے کی وجہ سے عموما کوئی سہولت حاصل نہیں کر سکتے بلکہ دو چار منٹ کی گھوریاں ایکسٹرا بونس کے طور پر اکثر جگہ مہیا ہیں سوائے چند ایک درویش عملے کے جو آپ کو فیملی ہونے کی وجہ سے تھوڑی بہت رعایت دینے میں کوئی اہانت محسوس نہیں کرتے۔ پاسپورٹ کنٹرول پر اپنے پورے ضبط و کنٹرول کا مظاہرہ کریں بلکہ ہو سکتا تو کوئی ٹافی، چیونگم، ڈوپٹہ یا اپنا بچہ ہی اٹھا کر اپنے منہ میں ٹھونس لیں کہ آپ کا پاسپورٹ ہاتھ میں تھامے ڈیوٹی افسر سو بھی سکتا ہے، گھر سے آنے والی کسی چند گھنٹوں کی کال میں گم ہو سکتا ہے، اور ساتھ کھڑے کولیگز کو کوئی دکھ بھری داستان سنانے میں بھی محو فراموش ہو سکتا ہے۔ تو اپنی سلامتی مطلوب ہے تو زبان ہاتھ اور ہوش و حواس کو کنٹرول میں رکھیں ورنہ آپ کا حامی و ناصر کم سے کم اگلے ائیر پورٹ پر اترنے تک اور کوئی نہیں۔ تو اپنی سلامتی کو محفوظ اور اپنے کپڑوں کو پھٹنے اور روندے جانے سے بچا کر رکھنا ہے تو زبان کو محفوظ رکھیں۔

ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ اسلام آباد کے ڈیپارچر لاونج میں پی آئی اے کی فلائیٹ کے لئے بیٹھے ڈھیروں ڈھیر مرد، چوڑے ہوتے ہوئے، تاڑتے ہوئے، ایک دم سے دبئی ائیرپورٹ پر اترتے ہی کس طرح بھیگی بلی بن کر کندھے جھکا لیتے اور نظر اور سر نیچا کر کے جون بدل لیتے ہیں۔ وہی وجود جو صرف اپنی موجودگی سے ہی اور نظر سے ہی دوسروں کے لئے زحمت کا انتہائی سبب بن جاتے ہیں دبئی ائیرپورٹ پر اترتے ہی انتہائی بے ضرر اور انڈر کنٹرول نظر آنے لگتے ہیں۔

صرف تین گھنٹے کی فلائیٹ لوگوں کی عادتیں اور اعمال بدل ڈالنے کی طاقت رکھتی ہے۔ یعنی افراد کو اچھے اعمال و کردار پر مجبور کرنے میں اور ان کے ضرر سے دوسروں کو محفوظ رکھنے میں صرف خاندانی اخلاق و وقار یا تعلیم و تربیت ہی اہم کردار ادا نہیں کرتی بلکہ وہ معاشرہ اور وہاں کا کڑا قانون بھی انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ معاشرے کا مضبوط قانون جہلا کو بھی تمیز سیکھنے اور اچھے رویوں کے مظاہرے پر مجبور کر دیتا ہے جبکہ پاکستان جیسے بے ضرر اور کمزور قانون اور ان کے نفاز کی غیر موجودگی بے ضرر سے کمزور افراد کو بھی دوسروں کے لئے باعث زحمت بننے کی بھرپور طاقت دے دیتے ہیں۔ معاشروں کے رخ کا بہتر تعین کرنے کے لئے اس میں قانون کی طاقت میں اضافہ کرنا ہی پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments