کرونا وائرس، صارفین اور منافع کا دیوتا


جب تک ذرائع ابلاغ ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ ضرورت ایجاد کی ماں تھی۔ لیکن اب پہلے ایجاد کی جاتی ہے، مصنوعات تیار کی جاتی ہیں اور بعد میں پروپیگنڈے کے زور پر انہیں ضرورت بنا کر بیچا جاتا ہے۔ اب جو کچھ بنایا جاتا ہے اسے بیچنے کے لئے مارکیٹ اور صارفین کی ضرورت تو پڑتی ہے۔ اور اگر مارکیٹ موجود نہ ہو تو مصنوعات پیدا کرنے والے مارکیٹ بھی پیدا کردیتے ہیں۔

عقلمند ہونے کی بنا پر ڈر اور لالچ انسان پر اثرانداز ہونے والے دو بڑے محرکات ہیں۔ جن کے سبب انسان کو کچھ بھی کرنے پر تیار اور آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ ایڈورٹائزنگ کے گرو انہی دو محرکات کو بروئے کار لاکر سالانہ اربوں کھربوں کے کاروباری سودے کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ خوبصورتی، کامیابی، صحت مندی، لمبی اور آرام دہ زندگی، پائیداری، بچت، تحفظ، شہرت، امتیازی معاشی اور معاشرتی حیثیت اور نہ جانے کون کون سے خوابوں کی لالچ دلاکر، اور بدصورتی، ناکامی، بیماری، معذوری، ناپائیداری، تہی دستی، عدم تحفظ اور معاشی نارسائی کا خوف اور احساس کمتری جگا کر کیا کچھ نہیں بیچا جاتا؟

کھیتوں میں پلنے اور قدرتی چراگاہوں میں چرنے والے مویشیوں کے تازہ دودھ سے ڈرا کر کیمیکل اور ملاوٹوں بھرا باسی دودھ، کارخانہ دار اپنے سرمایہ کے زور پر ہمیں بیچتا ہے۔ گھروں میں پکی تازی روٹی کی بجائے پروپیگنڈے کے دم پر ہم باسی روٹی (ڈبل روٹی، بریڈ، کیک اور بسکٹ) کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دودھ لسی جیسی صحت بخش خوراکیں چھوڑ کر چائے، کافی اور کولڈ ڈرنکس پینے کو بہتر سمجھتے ہیں۔ جان بچانے والی ناگزیر دوائی کی طرح، جو تریاق ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ سائڈ افیکٹ کی بھی حامل ہو، سگریٹ جیسے زہر اور قاتل پر بھی صرف مضر صحت لکھ کر بیچا جاسکتا ہے، تو پھر سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا؟ عام صارف کے لئے جاننا ناممکن ہے۔ بناسپتی کے مارکیٹنگ کے دوران دیسی گھی کو صحت کا دشمن باور کرایا گیا تو کارخانے چلے۔ لیکن اب تک کامیاب اتھلیٹ اور کھلاڑی دیسی گھی کو جزو خوراک بنانے کی تصدیق کرتے ہیں۔

برڈ فلو حقیقی بیماری ہے۔ لیکن پولٹری فارمنگ کی صنعت کو دیسی مرغیوں کی مارکیٹ میں مقبولیت کی صورت میں مسابقت کا سامنا ہو، سیل بڑھانی ہو، مارکیٹ میں سپلائی، قلت اور قیمت پر اجارہ داری قائم کرنی ہو، تو ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے برڈفلو کو خوفناک بلا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ تاکہ گھروں میں موجود مرغیوں کی نسل کشی ممکن ہوسکے۔ بس چند میڈیا مالکان، اینکرز، صحافیوں اور کالم نگاروں کی ضروریات کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔

اگر میڈیسن کا کاروبار، بیماریوں اور ڈاکٹروں کی روزی بیماروں سے وابستہ ہے۔ تو لامحالہ دونوں کو مارکیٹ اور صارفین کی ضرورت پڑتی ہوگی۔ دونوں کا منافع جراثیم اور بیماریوں کی مرہون منت ہے۔ اگر ساری بیماریاں اور مضرصحت جراثیم ختم کردی جائیں، تو صنعتکار اور ڈاکٹر کیا چھولے بیچیں گے؟ میڈیسن کمپنیاں وباوؤں کے موسم میں اپنی مصنوعات ڈاکٹروں کے ذریعے صارفین کو بیچتی ہیں۔ لیکن وبائیں نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے صنعت کاروں کی طرح وہ بھی مندی سے ڈرتے ہیں۔

اخبار میں سروے چھپ جاتا ہے کہ فلاں شہر کا پانی ہیپاٹائٹس اور ٹائفائیڈ کی آماجگاہ ہے۔ شہر کے دو چار بڑے ڈاکٹر مخصوص لیبارٹریوں میں اپنے مریض ٹیسٹ کروانے بھیجتے ہیں۔ اخباری رپورٹ کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ ”کامیاب علاج“ کے بعد دوبارہ وہی سے ٹیسٹ کروا کر صحت مند قرار دیے جانے والے مریض جب اپنے گھر میں جشن صحت مناتے ہیں تو ان کا ”علاج“ کرنے والے ڈاکٹر اور لیبارٹری کے مالک میڈیسن کمپنی کی تعاون سے اپنے بچوں سمیت آسٹریا یا سوئٹرزلینڈ میں زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں۔

سرمایہ اور صارف کے درمیان مسیحا اور کوڑھی کا نہیں منافع کا یک طرفہ رشتہ ہوتا ہے۔ ماضی میں غربت، بڑی آبادی اور اس آبادی کے لئے ناکافی خوراک کی وجہ سے، آج بھی چینی ”غیر روایتی پکوانوں“ کے لئے مشہور ہیں۔ شہر شہر سبزی مارکیٹوں کے ساتھ ”چڑیا گھر“ بھی موجود ہیں۔ کرونا کہاں سے آیا کوئی یقینی وجہ معلوم نہیں۔ لیکن بڑی آبادی کا مطلب، بڑی بھیڑ، بڑی بھیڑ کا مطلب، آپس میں زیادہ رابطہ اور تعلق، زیادہ رابطے کا مطلب، جراثیم کا زیادہ اور تیزی سے پھیلاؤ، زیادہ پھیلاؤ، زیادہ بیمار، زیادہ بیمار، زیادہ صارفین، زیادہ صارفین تو زیادہ منافع، جبکہ منافع سرمائے کا دیوتا ہے۔

چینی صنعتی ملک ہے۔ پیداوار، ٹارگٹس اور مارکیٹ کو چھوڑیں۔ ایک ارب سے زیادہ چینیوں کے لئے کتنے ماسک۔ گلوز اور سرنجوں کی ضروت ہے؟ منافع کے مندر میں سرمایہ بسجود ہے۔ ضروری نہیں کہ کرونا وائرس واقعی اتنا مہلک ہو کہ چینی آبادی میں کوئی نتیجہ خیز تبدیلی لاسکے۔ میڈیا کے ذریعے کرونا کا ہوا بنا کر اس سے زیادہ کمایا گیا ہے۔ جتنا ٹویوٹا کار کمپنی کسی وقت میں کرونا ماڈل کی کار بیچ کر کماتی تھی۔ ایک اور خوفناک حقیقت بھی آشکارہ ہوئی۔ ایٹم بم، سٹیلتھ طیارے، سپرسانک کروز میزائل، کیل کانٹے سے لیس جدید خونخوار افواج، عجائب گھر میں سجانے کی چیز بن جاتی ہے۔ اگر کسی ملک کے پانی یا خوراک کے ذخیروں میں کوئی نادیدہ ہاتھ کوئی نادیدہ مہلک جراثیم چھوڑ جائے۔

ہمسائے میں چھوٹے قد کے ایک بڑے اداکار کے سامنے ایک صنعتکار نے بلینک چیک رکھ کر اپنے نئے بیگ کے اشتہار میں کام کرنے کے لئے آمادہ کرنا چاہا۔ اداکار موڈی تھا انکار کردیا۔ صنعتکار اس پروڈیوسر کے گھر چلاگیا، جو انکار کرنے والے اداکار کی آنے والی فلم پر سرمایہ کاری کر رہا تھا۔ صنعتکار نے بغیر کسی صلے کے، فلم کے آدھے اخراجات بھرنے کی حامی بھرلی۔ اگر پروڈیوسر پوری فلم میں اداکار کو اس کا دیا ہوا لمبی پٹی کا بیگ پہنا دے۔ فلم ہٹ ہوئی۔ صنعتکار نے کوئی اشتہار دیے بغیر اپنے کروڑوں بیگ بیچ کر فلم پروڈیوسر سے زیادہ کمائے۔ سرمایہ مسجد بنائے، مندر بنائے یا گرجا گھر، غریبی وہاں عبادت نہیں کرتی اس کے باہر چادر پھیلا کر بھیک مانگتی ہے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 126 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments