شہر کی بے چہرہ زندگی سے گاؤں کی بوڑھی پگڈنڈیوں تک


غم روزگار سے لب ریز اور غم جاناں سے لب دوز شہر کی بے چہرہ زندگی کی کٹھالی میں دائرہ در دائرہ گھوم کر اپنے ہی بدن کے اندر عمر قید کی سزا کاٹتے کانٹے جب کلجگ کی نفسانفسی، افراتفری، انتشار، اخراجات ہمیں اندر سے لیر لیر کر دیتے ہیں تو ہماری تنہائی پسند طبیعت ان کترنوں کو چن کر بے نام اداسی اور اکتاہٹ کی گھٹڑی میں باندھ دیتی ہے اور پھر شانتی و خامشی کی اترن پہنے اجلے منطقوں کی راہ ڈھونڈتی ہے۔ اس وقت سکوت کی دوشالہ اوڑھے اپنے جسموں سے باہر نکل کر مہربان فطرت سے ہمکلام ہونے اور گاؤں کی کچی سوندھی مٹی پر ننگے پاؤں پھرنے کو من بے قراری سے ہمکتا ہے۔

آج ہمارے اوپر یہی کیفیت طاری ہوئی تو ہم بھائی لوگوں کی قربت میں ماروتی پر براجمان جھٹ سے شہر کی بدبوئی زمینوں سے گاؤں کی خوش بوئی سرزمینوں کی اور جا نکلے۔ دو گھنٹے کے سفر میں اپنے محبوب ”نائنٹی“ یعنی 1990 ء کی دہائی کے جادو اثر انڈین گیتوں کے فسوں اور جوانان رعنا کمار سانو، ادت نرائین اور نازک سندری الکا یاگنک جیسے کلا کاروں کی رس گھولتی آوازوں نے مشام جان کو معطر جبکہ سفر کی کلفت کو تتربتر کر دیا۔

گاؤں کی اداس پگڈنڈیاں اور صدیوں سی لمبی جدائی کی تھکن اوڑھے چناب دریا چپ چاپ تنہائی کی کوکھ میں کہولت کی کوک بھرتا ہے تو یاد اداسی کا استعارہ بن کر ایک نیا سپاس نامہ لکھتی ہے۔

آج کا دن گاؤں کی بوڑھی پگڈنڈیوں کے نام۔

آج کا دن گاؤں کے گھروں سے اٹھنے والے دھویں کی مہک کے نام۔

آج کا دن بہار کا مژدہ جانفزا سنانے والی خوشگوار باس کے نام۔

آج کا دن گاؤں کے گھر کے متروک دروازے کے بوسیدہ کواڑوں میں اٹکی یادوں کے نام۔

آج کا دن آشفتہ مزاج سندھو سائیں اور شانت سبھاؤ چناب دریا کے نام۔

رات کے گنجل لمحات کی گرد میں اٹا صدیوں کا مسافر تھکن سے نڈھال اپنے بوسیدہ وجود میں بیتے دن کی الوہی مہک کشید کرتے ہوئے آپ کو شب بخیر کہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments