ژالہ باری کی رات اور پِرجا کا حلالہ


پرجا غصے میں آگیا۔ وہ پہلے ہی حقو کے پیر مخالف خیالات سے نالاں تھا۔ وہ تھا پیر پرست، اس کے لئے سب کچھ پیر کی ذا ت ہی تھی۔ با باجی کی پیروری میں ہی اسے دونوں جہانوں کی کامیابی دکھائی دیتی تھی اور حقو ہمیشہ اس کی مخالفت کرتی تھی۔ اب ان باتوں نے اسے بڑھکا دیا۔

”ایک تو تم اوتر بیٹھی ہو اور پھر مائی جی سرکار کو برا بھلا کہہ رہی ہو۔ اگر ان کا لکھا تعویز تمہیں پسند نہیں، تو تم مجھے بھی پسند نہیں۔ تمہیں یہ تعویز اگر ماں لگتا ہے تو مجھے ایسی بیوی نہیں چاہیے۔ اب اگر میں تجھے ہاتھ لگاؤں، تو تم میری ماں۔ “

حقو ہکا بکا رہ گئی۔

”یہ کیا کہہ رہے ہو؟ کیسی جاہلانہ باتیں کر رہے ہو تمہیں ماں اور بیوی میں فرق رکھنا چاہیے۔ پیچھے ہٹو۔ “

”ٹھیک ہے میں اگر جاہل ہوں تو جاؤ کوئی اور ڈھونڈ لو۔ میں نے تمہیں طلاق دی۔ طلاق، طلاق، طلاق۔ دفع ہو جاؤ۔ “

اختلاف تو چھوٹی سی بات پر ہوا تھا لیکن چونکہ یہ مذہبی معاملہ تھا اس لئے بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک پہنچ گئی۔ حقو اٹھ کر صحن میں جا بیٹھی۔ وہ روتی جا رہی تھی۔ پرجا کا غصہ کچھ کم ہوا تو اس نے سوچنا شروع کیا کہ یہ میں نے کیا کہہ دیا ہے؟ رات بیتی جا رہی تھی۔ باہر شدید سردی تھی اور وہ ادھر بیٹھی تھی۔ وہ اس کے پاس گیا۔ تو چلا اٹھی۔

”اب جاؤ! مجھے ہاتھ مت لگانا۔ “

”اندرآ جاؤ۔ سردی میں بیمار ہو جاؤ گی۔ “

”مر جانے دو، مجھے۔ “

اب وہ اپنی غلطی پر پچھتا رہا تھا۔

لیکن اب ندامت و پشیمانی سے کیا لابھ؟

اگلی صبح وہ پیر کے قدموں میں بیٹھا رو رہا تھا۔ ”پیر سائیں، اب کیا ہو گا؟ “

”طلاق تو ہو گئی۔ بہت برا ہوا۔ “

”سرکار، کوئی راستہ دکھائیں۔ میں تو اس کے بغیر مر جاؤں گا۔ میرا تو اس دنیا میں کوئی بھی نہیں۔ “

”ٹھیک ہے، حل نکالیں گے۔ تم فکر مت کرو۔

جا او، عمرے۔ مولوی صاحب کو بلا کر لا۔ یہ شرعی مسئلہ ہے، ہم طریقت کو ماننے والے ہیں لیکن شریعت پر بھی پابند ہیں۔ ”

مولوی صاحب نے فتویٰ دیا کہ دونوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔ اب وہ ایک گھر میں نہیں رہ سکتے۔ مبادا بہک کر گناہ کر بیٹھیں۔ نوے دن کی عدت پوری ہونے کے بعد حلالہ ہوگا۔ پھر عدت۔ پھراس سے نکاح دوبارہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس نے اپنی بیوی کو ماں کہہ کر ظہار کیا ہے اس لئے اس کا کفارہ بھی لازم ہے۔ ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کھانا بھی کھلائے یا پھرمسلسل ساٹھ روزے رکھے۔

وہ خود مسکین تھا، کھانا کہاں سے کھلا سکتا تھا۔ روزے رکھ لے گا، لیکن نوے نوے دن کی دو عدتیں اور حلالہ۔ وہ کانپ اٹھا۔

”مولوی صاحب کوئی اور حل نکالیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں طلاق تو ایک ہوئی ہے۔ رجوع ہو سکتا ہے۔ “

”یہ ہماری فقہ میں نہیں۔ تم نے تین مرتبہ طلاق دی۔ تین طلاقیں ہو گئیں۔ “

”مولوی صاحب، ہمارے ملک کا قانون کچھ اور کہتا ہے۔ “ پاس ہی بیٹھا پیر سائیں کا بیٹا جو نیا نیا وکالت کا امتحان پاس کر کے آیا تھا، بولا

”صاحبزادہ سرکار، آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ لیکن فقہ اس کی تابع نہیں۔ چھوڑیں قانون کو، وہ غیر اسلامی ہے۔ “ مولوی بولا،

”ان قوانین کو بھی علمأ، وکلأ، سیاست دان اور عوامی نمائندگان نے باہم رضا مندی سے بنایا ہے۔ “ صاحبزادہ بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔

”ہم کسی قانون کو نہیں مانتے۔ میں کوئی غیر شرعی فتویٰ نہیں دے سکتا۔ اسے ہمارے ہاں رہنا ہے تو ہماری فقہ اور ہماری مرضی چلے گی۔ بات ختم۔ “ مولوی نے کنکھیوں سے پیر سائیں کی طرف دیکھتے ہوے کہا۔

حقو زار و زار روتی جا رہی تھی۔ وہ اٹھ کر جانے لگی تو عمرا بولا ”کہاں جا رہی ہو؟ اب تم اس کے گھر نہیں جا سکتی ہو۔ یہ کنجر خانہ نہیں چلے گا۔ “

”بکواس بند کر، “ پیر صاحب چلائے۔ ”سوچ سمجھ کر بولا کر۔ اس کا کون سا گھر ہے جہاں وہ جا سکتی ہے؟ وہ اسی گھر میں رہے گی اور پرجا ادھر دربار میں۔ “

”پیر سائیں وہ اکیلے کیسے رہ سکتی ہے؟ “ پرجا روپڑا۔

سب سوچ میں پڑ گئے اس کے ماں باپ بھی نہیں تھے۔ وہ کدھر جاتی۔

”ٹھیک ہے۔ یہ عدت تمہاری چھوٹی مائی پاک کے پاس شہر میں پوری کرے گی۔ حقو اس گاؤں میں رہے، نہ ان دونوں کا ایک دوسرے کو دیکھ کر دل للچائے۔ “

پیر سائیں نے فیصلہ سنا دیا۔

حقو بی بی کو پیر سائیں کے گھر شہر منتقل کر دیا گیا۔ اور پرجا دیوانہ تنہائی کی چادر اوڑھے اپنے گھر کی ویران چوکھٹ پر جبیں سائی کو چل پڑا۔

اب اس کے دن بے رنگ اور راتیں اندھیری تھیں۔ وہ اپنے آپ سے ڈرتا تھا۔ اسے ہر آواز میں، ہر آہٹ پر حقو کے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی تھیں۔ وہ سائے دیکھ کر بھڑک اٹھتا تھا۔ اس نے اسے راستے میں کھو دیا تھا۔ وہ اسے ڈھونڈتا تھالیکن وہ اپنے آپ سے ہی بھاگ رہا تھا۔ وہ خود کو تہس نہس کر دینا چاہتا تھا۔ اپنے وجود سے الگ ہونا چاہتا تھا۔ وہ اپنے الفاظ کی راکھ اپنے منہ پر مل کر دفن ہو جانا چاہتا تھا۔ عدت کے بعد آنے والی واردات کے بارے میں سوچتا تو دیواروں سے سر ٹکرانا شروع کر دیتا۔ ایک دم ٹھنڈا پڑ جاتا۔ جب بھی وہ دربار میں جاتا تو بہت سی ملنگنیوں کو دیکھتا جو ایسے ہی مسائل میں الجھ کر دربار پر آئیں اور پھر ان کو لینے ان کے خاندان کا کوئی فرد نہیں آیا۔

ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ پیر سائیں کو کوئی اور راستہ ڈھونڈنے کا کہے گا۔ پیر سائیں اب اکثر شہرمیں ہی رہتے تھے۔ جمعرات کو آئے تو دم درود کروانے والوں کا بہت رش تھا۔ وہ سارا دن دربار کے برآمدے میں بھوکا پیاسا بیٹھا رہا۔ رات گئے پیر صاحب فارغ ہوئے تو وہ ان کے قدموں سے لپٹ گیا۔ ”باوا سائیں تین ماہ ہونے کو ہیں۔ اب کیا ہوگا؟ “

پیر نے بیٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔

”فکر نہ کر پرجا۔ تیری مشکل کٹنے والی ہے۔ اب اس کا حلالہ ہو گا۔

تو نے روزے پورے کر لئے ہیں؟ ”

”پیر سائیں، وہ تو شرم سے مر جائے گی۔ “

”دوسرا کوئی حل ہے ہی نہیں۔ اور شرم والی بھی کوئی بات نہیں۔ شرع میں کیا شرم؟ اپنا عمرا ہے نہ۔ ہے تو مرد ہی، لیکن وہ کون سا پورا مرد ہے۔ جیسا اس کا ہونٹ اور تالو کٹا پھٹا ہے ویسا ہی سب کچھ ہے۔ سب کچھ کھنڈا سا، اور وہ بھی تنکے جتنا۔ جب سے یہ دربار پر آیا ہے لوگوں کی قسمت سنور گئی ہے۔ اب تم نے دیکھا ہو گا کہ بہت کم لوگ اپنی عورتوں کو ادھر چھوڑ کر جاتے ہیں۔ ان کا کچھ بگڑتا ہی نہیں۔ شرع کی حجت بھی پوری ہو جاتی ہے۔

تم اپنی بات کہو۔ تم نے روزے پورے کر لئے ہیں؟

وہ تو میں نے ابھی شروع ہی نہیں کیے؟

تو کب کرو گے؟

اگلے ہفتے پہلی عدت پوری ہو جائے گی تو میں اسے لے کر یہاں آؤں گا اور ادھر دربار میں ہی نکاح کروا کر واپس شہر بھیج دوں گا۔ اگلے دن طلاق۔ تم دربار سے دور ہی رہنا۔ دور دور سے اسے دیکھ لینا۔ وہ تمہیں دیکھے گئی تو بہت تڑپے گی۔ تم تو مرد ہو تم برداشت کر لو گے، اس کے لئے مشکل ہو گی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments