ژالہ باری کی رات اور پِرجا کا حلالہ


یہ سب سن کر اس نے دونوں ہاتھوں سے اپناچہرہ چھپا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگا۔ پیر سائیں اسے دلاسا دیتے ہوئے اٹھ کر چل دیے۔ جاتے ہوئے کہنے لگے ”جومیں نے تمہیں وظیفہ بتا یا تھا وہ پڑھا کرو۔ رات کو سوتے وقت اول آخر درود شریف پڑھ کر شجرہ نسب کا ورد کیا کرو۔ سرکاراں کی رحمت ہو گی۔ “

اسے کچھ حوصلہ ہو گیا تھا لیکن وہ سوچتا تھا کہ میری حقو تو بہت شرمیلی ہے وہ تو باپ بجا پیر کے سامنے پیٹ کھولنے کو تیار نہیں ہوئی تھی۔ یہ شیطان عمرا تو اسے کاٹ کھائے گا۔ وہ مردار خور، نذرانوں پر پلنے والا، جب کچھ کر نہیں سکے گا تو جنجھلا ہٹ میں اسے زخمی کر دے گا۔ اس کے لگڑ بگڑ جیسے دانت نرم و ملائم جلد کو نوچ ڈالیں گے۔ اس کی ایسی شکائتیں وہ پہلے بھی سن چکا تھا۔ لیکن اُس وقت وہ سنی ان سنی کر دیتا تھا۔ اور اسے سمجھ بھی نہیں آتی تھی۔ اب وہ سوچ سوچ کر پاگل ہوئے جا تا تھا۔ کبھی وہ سوچتا یہ شیطانی خیالات ہیں جو اسے بڑھکاکر بغاوت پر اکسا رہے ہیں۔ اس نے وسوسوں کو بھگانے کے لئے خدا سے لو لگا لی۔

شیطان انسان کی رگوں میں خون کے ساتھ دوڑتا ہے۔ بھوک اس کی راہ مسدودکرتی ہے۔ ساٹھ دن مسلسل روزہ۔ گرمیاں شروع ہو چکی تھیں۔ یہ آسان نہیں تھا۔ لیکن اس نے فیصلہ کرلیا۔ تین ماہ کے دکھ اور فاقوں نے اسے پہلے ہی کمزور کردیا تھا۔ پہلے دن ہی اس کا حلق سوکھ کر کانٹا ہو گیا اور وہ شام تک بھوک سے نڈھال ہو چکا تھا۔ روزہ کھولنے کے بعد وہ نیم مردہ چارپائی پر لیٹ گیا۔ اسے مولوی پر غصہ آ رہا تھا۔ اس نے جھٹ فتویٰ دے دیا تھا۔

ملکی قانون بھی ایسی طلاق کو نہیں مانتا۔ بہت سے علمأ ایک وقت میں دی گئی طلاقوں کو ایک ہی شمار کرتے ہیں۔ وہ رجوع کر سکتا تھا۔ اس نے خود کو کوسنا شروع کردیا۔ وہ جلدی سے بھاگ کر پیر کے پاس چلا گیا تھا۔ گھر میں ہی چپ چاپ روزے رکھ کر کفارہ ادا کر دیتا۔ غلطی اس نے کی اور سزا حقو کو مل رہی تھی۔ طلاق اس نے دی حلالہ عورت کا۔

روزوں سے اس کی رہی سہی طاقت بھی جاتی رہی۔ اس کی بھینس چارے کی کمی سے مر گئی۔ ژالہ باری نے آموں کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ اس کے بعد وہ ان کی بھی حفاظت بھی نہ کر سکا۔ اس کا گھر ویران ہو گیا تھا۔ وہ سوکھ کر کانٹا بن گیا تھا۔

نہ کوئی روٹی پکانے والا اور گرمیوں کے روزے۔ اب وہ سحری میں صرف پانی پی کر ہی روزہ رکھ لیتا تھا سارا دن دربار پر پڑا رہتا۔ شام کوچڑھاوے میں جو بھی ملتا زہر مار کر لیتا۔ وہ بھی بہت کم۔

اب وہ ہر چیز سے بے تعلق نچنت ہو گیا تھا۔ زندگی میں نفع نقصان کی پرواہ نہیں رہی تھی۔ بھوک، فاقہ انسان کو صبر سکھا دیتاہے اور روزہ، توکل اور بے خوفی۔ اور اگر انسان یہ سب اپنی مرضی سے کرے، روزے نفلی رکھے تو ہر مرئی اور غیر مرئی چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ بھوک اسے مجبور نہیں کر سکتی۔ اس نے بھوک کو دور بھگا دیا تھا۔ وہ اس پر ہنس سکتا تھا۔ اب وہ مکمل آزادہو گیا تھا۔ اس نے خاموشی اختیار کر لی۔ وہ بولنا چاہتا بھی تو بول نہیں سکتا تھا۔ دو ماہ کے روزوں نے اسے لکڑ بنا دیا۔ پیر صاحب دربار میں آتے تو وہ دھیان ہی نہ دیتا۔ عمرا ہر جمعرات کو اس کا حال جاننے اس کے پاس ضرورآتا۔ وہ بے سدھ پڑا منہ دوسری طرف پھیر لیتا۔ منجمد چہرے میں کچھ دکھائی نہ دیتا۔

کبھی کبھی وہ ملنگوں کے پاس بیٹھ جاتا، ٹک دیکھتا اور سر جھکا کر پڑے رہتا۔ بھاگ کر ملنگنیوں کی طرف جاتا اور فورا ًواپس آجاتا۔ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ وہ نشئی ہو گیا ہے۔

ایک دن پیر صاحب نے بلایا تو اسے پتا چلا کہ دوسری عدت بھی پوری ہونے والی ہے۔ پوچھا ”روزے پورے ہو گئے؟ “ وہ خاموش رہا۔ ایک ملنگ بولا ”یہ کئی ماہ سے ادھر پڑا ہے ہم نے کبھی دن میں اسے کچھ کھاتے پیتے نہیں دیکھا۔ “

پیر سائیں کہنے لگے ”اگلی جمعرات کو اس کا نکاح حق بی بی سے پڑھایا جائے گا۔ “

اس کے جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ عمرے نے معنی خیزنظروں سے پیر کی طرف دیکھا۔ ان کا چہرہ انتہائی پر سکون تھا۔

جمعرات کو پیر صاحب کی گاڑی سے گٹھری سی بنی حقو کو جب نکالا گیا تو وہ پھر بھی خاموش بیٹھا رہا۔ حقو نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور اس کے بائیں طرف سر جھکا کر بیٹھ گئی۔ مولوی صاحب موجود تھے۔ نکاح کے لئے پیر صاحب کی اجازت سے ایجاب و قبول کا پو چھا تو یک دم عمرا سامنے آ گیا۔

”یہ نکاح نہیں ہو سکتا۔ “

سب لوگ سہم گئے۔ روشن دانوں اور سوراخوں میں چپ بیٹھے پرندے پھڑ پھڑانے اور شور مچانے لگے جیسے باگڑ بلے، چیل کوے ان کے نوزائیدہ بوٹ اٹھا کر لے گئے ہوں۔ پرجا میں کوئی ہل جل نہ ہوئی۔

”کیوں، عمرے کیوں؟ “ پیر صاحب نے پوچھا۔

”یہ حاملہ ہے اور میرے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ “

”یہ کیا کہہ رہا ہے، تو؟ “

”پوچھ لیں اس سے۔ “

پرجا کا جھکا سر مزید جھک گیا۔

مولوی اٹھ کر کھڑا ہو گیا

” حاملہ کا نکاح پڑھا کرمیں گناہ گار نہیں ہونا چاہتا۔ “

حقو نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔

”ہاں۔ ہاں میں حاملہ ہوں۔ لیکن اس کھسرے کے بچے کی ماں نہیں۔ اس پیر نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے اور میں اس وقت بھی حاملہ تھی جب میرا نکاح اس مردار خور کھنڈے سے پڑھایا گیا تھا۔ اور اس مولوی کو بھی سب پتا تھا۔ یہ لوگ مجھے کبھی بھی پیر کی بیگم کے گھر لے کر نہیں گئے۔ یہ بھڑوا، بھپڑ دلال مجہول لوگوں کی عورتیں اپنے نکاح میں لا کر پیر کو پیش کرتا ہے۔ پیر روز میرا جسم نوچتا رہا ہے۔ انہوں نے پرجا کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ میں خاموش تھی کہ بالآخر میری مصیبت ٹل جائے گی۔ لیکن اب میں خاموش نہیں رہ سکتی۔ “

پرجے کے جسم میں حرکت ہوئی۔ وہ غصے سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ فرش پر زور سے پاؤں مارا تو دربار کے درو دیوار کانپ اٹھے

”میں نہیں مر سکتا۔ اب میں کمزور نہیں، اور بھی مضبوط ہو گیا ہوں۔ اوے مولوی، حرام کھانے ولوں کے تم طرف دار ہو، بدکاروں کے ساتھی اور ناجائز کرنے والوں کے ہمدرد۔ ان کے لئے کوئی پابندی نہیں اور حق داروں کے راستے میں تم شریعت کی دیوار کھڑی کر دیتے ہو۔

ہمیں تمہارے دوبولوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ”

پِرجا نے حق کا بازو تھام لیا اور دربار سے باہر چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments