ژالہ باری کی رات اور پِرجا کا حلالہ


اترسوں رات سے موسم خراب تھا۔ اس سال سردی کڑاکے کی پڑی تھی۔ موسم کی شدت ہر چیز کو غارت کردینے پر تلی تھی۔ بہار کا موسم شروع ہو چکا تھا پھاگن کا مہینہ تھالیکن سردی جانے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ بادلوں کے اوٹ سے جھانکتے تر چھے سورج کی زرد روشنی ابھرتی ہوئی گندم کے خوشوں کو پیلا رنگ رہی تھی۔ کبھی کبھی دکھائی دیتے سورج میں حدت ذرا برابر بھی نہیں تھی۔ شمال کے پہاڑوں سے آنے والی برفانی ہوائیں اٹھ اٹھ کر شدت سے چلنے لگی تھیں۔

آہستہ آہستہ کہر اور کالے بادل ہر طرف چھا رہے تھے۔ گرد و غبار کے بادل بھی اٹھ رہے تھے۔ آندھی کی علامت تھی۔ تیز ہواؤں کے جھکڑ چلنا شروع ہو گئے۔ سر سراہٹ اور گڑ گڑا ہٹ۔ قدرت نے آندھی میں طوفان کی روح ودیعت کر دی تھی۔ ریت اور مٹی کے ساتھ گردکے سنگریزے اڑ اڑ کر چہروں کو زخمی کر رہے تھے۔ ایک عجیب دہشت تھی۔ الامان و الحفیظ۔ افق سے ابھرتے زرد رنگ کے ابر کی ایک نئی تہہ اس خاک آلودہ ماحول کو مزید خوف زدہ کر رہی تھی۔ یہ ہوا، یہ برق، یہ ابر و رعد، یہ تیرگی، جملہ ہولناکیوں کے ساتھ پھاگن کے مہینے میں ژالہ باری کی علامت تھی۔ پچھلی فصل کی پیداوار بھی اسی وجہ سے انتہائی کم حاصل ہوئی تھی۔

لوگ اونچی ڈھیری پر واقع مزار میں جمع، ہواؤں کے تھپیڑے سہتے ہوئے، شہر سے آنے والے بنجر راستے پر نظریں جمائے کھڑے تھے۔ پیر دربار پر موجود نہیں تھا۔ جواں مرد، بڑے بوڑھے، عورتیں اور بچے جو بدستور دست بدعا آسمان کی طرف منہ اٹھائے کھڑے، بُت معلوم ہوتے تھے۔ بچے دبکے بیٹھے تھے۔ طویل انتظار اور خوف سے لوگوں کے دل اُوب گئے تھے۔ لیکن ’پِرجا‘ بہت پر امید تھا۔ باوا جی پہنچتے ہی ہاتھ اٹھائیں گے ان کی دعا کامیاب ٹونا بن کر گھٹاؤں کا زور توڑ دے گی۔ پِرجا کا ان پر اندھا اعتقاد تھا۔ اسے پکا یقین تھا، ”پیر اولے باندھ دیں گے۔ پیر کا صدقہ، میری فصل کی رب خیر کرے۔ طوفان تھم جائے گا۔ “

وہ اسی دربار پر پلا بڑھا تھا۔ دربار کی ڈھائی تین ایکڑ زمین پر آم کا باغ تھا۔ یہ باغ اس نے ٹھیکے پر لیا ہوا تھا، پودوں پر بور لگا ہوا تھا۔ پودوں کے درمیان اس نے گندم اور اپنی ایک بھینس کے لئے چارا لگایاہوا تھا۔ ایک اور ایکڑ جو نہر کے کنارے تھا اس میں وہ سبزی بیج لیتا تھا جس سے اس کے روز مرہ کے اخراجات پورے ہو جاتے۔ اس کی جائداد تو کوئی تھی نہیں، اگر فصل اچھی ہو جاتی تو اس کو کھانے کو روٹی مل جاتی۔ مینہ برسنا شروع ہو گیا تھا۔

اور پھر شدید ژالہ باری۔ یوں لگتا تھا پہاڑوں سے پتھر ٹوٹ کر گرنا شروع ہو گئے ہیں۔ طوفان کے ساتھ اس کی امیدیں، امنگیں ژالہ ساں گھلے جا رہی تھیں۔ حقو اس کے پیچھے کھڑی تھی۔ مڑ کر کہنے لگا ”پنج تن پاک کی خیر ہو، باوا پیر، کہیں طوفان میں نہ پھنس گئے ہوں؟ “ بیوی کی آنکھوں سے اشکوں کے قظرے ژالہ کی طرح ہی ٹپک رہے تھے۔ بولی ”پیر سائیں وہاں سے بھی تو دعا کر سکتے ہیں۔ “

”کیسی باتیں کر رہی ہو؟ کیا وہ نہیں چاہتے کہ ہماری فصلیں بچ جائیں؟

تم جب بھی بولتی ہو شک کا اظہار ہی کرتی ہو۔ تمہارا ایمان کمزور ہے۔ ”

وہ ایسی باتیں کئی بار سن چکی تھی۔ سنا ان سنا کر کے زیر لب کہنے لگی

”ژالہ باری قدرت کا کھیل ہے۔ جو ہماری قسمت۔ “

طوفان کچھ تھما تو پیر سائیں کی گاڑی مزار کی حدود میں داخل ہوئی۔ لوگ بچھ بچھ جا رہے تھے۔ پیر صاحب نے ان کو حوصلہ دیا اور دعا میں مشغول ہو گئے۔

وہ دونوں بھی شامل تھے۔ بارش رک چکی تھی۔ ہر طرف اندھیرا چھا چکا تھا۔ وہ نا امید سے گھر واپس آ گئے۔

وہ حقو سے بہت پیار کرتا تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ کالی گھٹاؤں کے درمیان چمکتا ہوا سندر چتر مکھڑا، سرخ گیلے ہونٹ جیسے تازہ کٹا ہوا انجیر جس کی بوند بوند میں مٹھاس رچی بسی تھی۔ محراب دار ابرو، نین چنچل اور دربار کے صدیوں پرانے متبرک کنویں سے بھی گہرے۔ صراحی دار گردن ہر پہناوے سے اٹکتی ہوئی، الجھتی ہوئی۔ بازو مضبوط اور ملائم۔ متناسب جسم، تانبے اور سندور کا ملا جلادمکتا رنگ۔ جوانی اس پرٹوٹ کر برسی تھی۔

پیراہن اس کے لاریب شفاف بدن کی ہر جاے دلکش سے چسپاں ہو کر اتراتا تھا۔ شادی کو دو سال ہو چکے تھے۔ وہ ماں نہ بن سکی تھی۔ پرجا اسے بارہا کہہ چکا تھا کہ پیر سائیں سے تعویز لکھوائیں۔ لیکن حقو ماننے کو تیار ہی نہیں تھی۔ پیر سائیں کا خاص چیلہ ’عمرا‘ اسے کئی بار سمجھا چکا تھا۔ اسے یہ چیلہ زہر لگتا تھا۔ اس کی نظر شیطانوں جیسی تھی۔ وہ آنکھیں گڑو گڑو کر عورتوں کو دیکھتا، معلوم ہوتا تھا کہ وہ کپڑوں کے پار جسم کو گھور رہا ہے۔

نذرانے ہمیشہ وہی وصول کرتا تھا اور اکثر پکڑتے ہوئے وہ اپنے ناخنوں سے ان کے ہاتھ چھیل دیتا۔ اس کے بولنے کا انداز ہیجڑوں جیسا تھا۔ ٹھوڑی پر کچھ کچھ بال تھے اور گالوں پر اس سے بھی کم۔ مونچھیں بھی باریک سی۔ اوپر والا ہونٹ کھنڈا تھا اور حنک (زخنداں) بھی تھوڑا سا مشقوق (دو شاخہ)۔ غاں غاں کر کے بولتا تھا۔ کہتے تھے کہ پیدائشی طور پر ہے تو مرد ہی، لیکن۔ ہیجڑہ؟

پرجا اسے لے کر پیر سائیں کے پاس گیا اور تعویز کرنے کا کہا۔ وہ بولا ”پیر سائیں پیٹ پر تعویز لکھیں گے تو اللہ، پنجتن پاک رحمت کر دے گا۔ “

حقو شرم سے پانی پانی ہو گئی۔ عمرے نے اس کے پیٹ سے کپڑا اٹھانے کی کوشش کی تو وہ چلا اٹھی۔ اگر اس کا پیٹ کھل جاتا تو اس کی چمک دمک اور تھر تھراہٹ سے دربار کی چھت بھک سے اڑجاتی۔ اس نے اپنی قد کاٹھی چھپا لئے اور زمین پربیٹھ گئی۔ کھنڈا کہنے لگا ”نہ دہیے نہ۔ پیر تو مائی باپ ہوتا ہے۔ ان سے کیا پردہ؟

دیکھو! دودھ پوت پر پیر سائیں کی مہر ہوتی ہے۔ پیر ہاتھ لگا دے تو سوکھے درختوں سے بھی کونپلیں پھوٹ آتی ہیں اور تم تو ہری بھری کھیتی ہو۔ سرکار پھل لگائیں گے۔

پیر سائیں پیڈو پر نقش بنائیں گے۔ کلام لکھیں گے، تو ادھر چاند اترے گا۔ ”

”لیکن، میں۔ نہ نہ۔ ۔ “ وہ مارے شرم کے سمٹ کر چھوئی موئی کی گٹھڑی بن گئی۔

پیر سائیں بھی زمانہ آشنأ تھے۔ چیلے کو مخاطب کر کے کہنے لگے ”اوئے عمرے! کیوں زبردستی کرتا ہے معصوم پر۔ جا! اسے گھر میں مائی پاک کے پاس لے جا۔ اسے میں بتا دوں گا وہ نقش لکیر دے گی۔ تمہاری بڑی مائی بہت کرنی والی ہے۔ “

حقو گھر جانے کو بھی تیار نہ تھی۔ پِرجا اسے غصے سے واپس لے آیا۔ اگلے دن اسے دوبارہ مائی کے پاس لے کرگیا اور اس کے نہ ماننے پر ایک تعویز لکھوا کر لے آیا۔ جو زبر دستی اس کے پیٹ پر باندھ دیا۔ رات کو جب وہ جفت ہونے لگے تو حقو نے اسے پھر اتار دیا۔

”میں اسے اپنے اور تمہارے درمیان نہیں آنے دوں گی۔ “

”کیوں؟ “

”یہ کلام ہے تو، ناپاک جگہ پر کیوں لگنے دوں۔ اگر یہ جادو ٹونا ہے تو میں ایسی جہالت کو نہیں مانتی۔

اور میں کہہ رہی ہوں۔ میرے اور تمہارے بیچ کوئی بھی نہیں آ سکتا۔ ”

”لیکن یہ تو مائی پاک کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ “

”اب ہمارے درمیان اس حالت میں تمہاری یہ ماں آئے گی۔ مجھے یہ پسند نہیں۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments