دہشت گرد قاتل، مقتول پروفیسر اور اسکارف والی لڑکی


 

جی، پوچھیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کے وجود سے ہی انکار کر دے؟

نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔

اگر ایسا نہیں ہے تو ایک سیکولر ریاست پردہ کرنے والی لڑکیوں کو کلاس رومز میں جانے سے کیوں روکتی ہے؟ جبکہ وہ صرف اپنے مذہبی تعلیمات پر عمل کر رہی ہوتی ہیں۔

بیٹا، سچ پوچھیں تواس بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ ٹی وی پر دن رات یہی موضوع زیر بحث رہتا ہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ لڑکیاں اب بھی نقاب اتارنے سے انکاری ہیں اور ریاست اب بھی ان کو کلاس رومز میں جانے سے روک رہی ہے۔

سر، پھر تو ایک اور سوال پوچھنا بنتا ہے؟ ہمارا آئین ہمیں مذہب اور تعلیم کی آزادی دیتا ہے تو کیا اسکارف پہننے والی لڑکیوں کو کالج سے نکال دینا آئین خلاف ورزی نہیں ہے؟ پلیز سر، مجھے بتائیں، کیا آپ کا ضمیر آپ کو ملامت نہیں کرتا؟

اگر وہ لڑکیاں اتنی ہی فرمانبردار ہیں جس طرح آپ کہہ رہے ہیں، پھر تو ان کو اپنے اسکارف اتار پھینکنا چاہیے۔ بیٹا آپ کا نام کیا ہے؟ آپ کہاں رہتے ہیں اور کام کیا کرتے ہیں؟

میں ایک ٹی ہاؤس میں کام کرتا ہوں، جو توقات کے مشہور مون لائٹ حمام کے پاس ہے۔ میرا نام اہم نہیں۔ میں پورا دن ”پرچم ریڈیو“ سنتا ہوں۔ جب کبھی میں کسی مسلمان سے ہوئی زیادتی کا سنتا ہوں تو بہت اداس ہوتا ہوں۔ میں ایک جمہوری ملک میں رہنے والا آزاد شخص ہوں اور ہر فوہ کام کرتا ہوں جو مجھے خوشی دے۔ کبھی کبھی بس میں بیٹھ کر ترکی کے دوسرے کونے تک جاتا ہوں تاکہ ان لوگوں سے روبرو ہوسکوں جو مسلمانوں کو تنگ کرتے ہیں۔ پلیز سر، میرا ایک اور سوال ہے۔ کیا انقرہ سے جاری ہونے والا حکمنامہ زیادہ اہم ہے یا حکم خداوندی؟

بیٹا، اس بحث کی کوئی انتہا نہیں ہے، آپ کون سے ہوٹل میں رکے ہوئے ہیں؟

لگتا ہے آپ مجھے پولیس کے حوالے کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ سر، مجھ سے خوفزدہ نہ ہوں، میں کسی مذہبی تنظیم سے تعلق نہیں رکھتا۔ میں دہشت گردی کے خلاف ہوں۔ میں خدا کی محبت اور آزادانہ تبادلہ خیال پر یقین رکھتا ہوں۔ انتہائی تیز طبیعت کا مالک ہونے کے باوجود کبھی بحث کو جھگڑے تک نہیں لے کر جاتا۔ معافی چاہتا ہوں سر، بس میرے چند سوالوں کے جواب دیں۔ کالج کے باہر اسکارف پہننے والی لڑکیوں کے ساتھ آپ جس جابرانہ طریقے سے پیش آئے، کیا اس کے باوجود آپ کا ضمیر ملامت نہیں کرتا، جبکہ آپ کو پتہ ہے کہ وہ صرف قران پاک کے اس حکم کی پیروی کر رہی تھیں جو سورہ النور میں دیا گیا ہے۔

بیٹا، قرآن پاک میں تو یہ بھی کہتا ہے کہ چوروں کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں لیکن ریاست ایسا نہیں کرتی، پھر آپ اس کی مخالفت کیوں نہیں کرتے؟

زبردست جواب دیا ہے سر آپ نے۔ مجھے ایک بار پھر اپنے ہاتھوں کا بوسہ لینے دیں۔ آپ ایک چور کے ہاتھوں کا موازنہ ہماری بچیوں کی عزت کے ساتھ کیسے کر سکتے ہیں؟ امریکی سیاہ فام پروفیسر مارون کنگ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اسلامی ممالک میں جہاں خواتین اپنا سر ڈھانپتی ہیں، زنا کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ ہراسانی کے واقعات تو سرے سے ناپید ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک خاتون اپنا سر ڈھانپتی ہے تو وہ یہ اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ مجھے ہاتھ مت لگاؤ۔ نقاب کرنے والی لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھ کر کیا ہم انہیں دیوار سے نہیں لگا رہے؟ ننگے سر گھومنے والی لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرکے کہیں انہیں جنسی ہراسانی کی جانب تو نہیں دکھیل رہے جیسے یورپی خواتین کو دھکیلا گیا تھا۔ میں اپنے الفاظ کی معافی چاہتا ہوں، لیکن کیا ہم ایسا کرکے ایک دلال کا کردار ادا نہیں کر رہے؟

بیٹا، میری پیسٹری ختم ہوچکی ہے، مجھے جانا ہوگا۔

سر، اپنی نشست پر بیٹھے رہیں۔ آپ اپنی نشست پر بیٹھے رہیں گے تو مجھے یہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی (جیب سے کوئی چیز نکالتے ہوئے ) کیا آپ دیکھ رہے ہیں، یہ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟

جی، یہ بندوق ہے۔

آپ بالکل صحیح سمجھ رہے ہیں سر، مجھے امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے۔ میں بہت دور سے صرف آپ سے ملنے آیا ہوں۔ میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ آپ مجھے سننے سے انکار کر سکتے ہیں اس لیے میں احتیاطاً یہ بندوق ساتھ لی تھی۔

بیٹا، آپ کا نام کیا ہے؟

وحید، سلیم یا کچھ اور، سر، سچ پوچھو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں اُن بے نام ہیروز کا بے نام محافظ ہوں، جو ناکردہ گناہوں کی سزا ہیں۔ ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں اپنے مذہبی عقائد پر کاربند رہنا چاہتے ہیں جو مادیت پرست سیکولرزم کا غلام بن چکا ہے۔ میں کسی تنظیم کا حصہ نہیں ہوں۔ میں انسانی حقوق کا احترام کرتا ہوں اور مجھے تشدد سے نفرت ہے۔ اس لیے میں اپنی بندوق کی نمائش نہیں کرتا۔ آپ سے میں صرف اپنے سوالوں کے جواب کا طلبگار ہوں۔

سر، میں دوبارہ آپ کو آغاز میں لے کر جاتا ہوں۔ یاد کریں، آپ نے ان لڑکیوں کے ساتھ کیا کیا۔ والدین نے ان بچیوں کو انتہائی محبت کے ساتھ پال پوس کر بڑا کیا۔ وہ اپنے والدین کی آنکھ کا تارہ تھیں۔ وہ بہت ذہین تھیں۔ وہ تعلیم کے لیے سخت تگ و دو کر رہی تھیں۔ وہ کلاس میں بھی سب سے آگے تھیں۔ پھر انقرہ سے ایک آرڈر آیا اور آپ نے ان لڑکیوں کے وجود سے ہی انکار کردیا۔ ان میں سے کسی نے اپنا نام رجسٹر پر درج کیا تو آپ نے وہ نام مٹا دیا، صرف اس لیے کہ وہ اسکارف پہنتی تھی۔

سات لڑکیاں آپ کے پاس بیٹھی ہوں تو آپ کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ان میں سے اسکارف پہننے والی لڑکی وہاں موجود ہی نہیں ہے۔ آپ چھ لڑکیوں کے لیے چائے منگواتے ہیں جبکہ وہاں سات لڑکیاں تھیں۔ آپ کو پتہ ہے آپ نے ان لڑکیوں کو رلا دیا ہے، پھر بھی آپ کا دل نہیں بھرا۔ جلد ہی انقرہ سے ایک اور حکم آیا اور آپ نے ان لڑکیوں کو کلاس سے نکال دیا۔ آپ نے انہیں کلاس رومز سے اٹھا کر راہدریوں میں پھینک دیا، پھر آپ نے ان پر راہدریاں بھی بند کر دی اور انہیں اٹھا کر باہر سڑک پر پھینک دیا۔ پھر جب وہ لڑکیاں اپنے خدشات اور گزارشات لے کر کالج کے دروازے پر آئیں، آپ نے فون اٹھایا اور پولیس بلا لی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments