دہشت گرد قاتل، مقتول پروفیسر اور اسکارف والی لڑکی


(ارحان پاموک کے ناول ”اسنو“ سے ایک اقتباس)

ترکی کے انتہائی شمال میں شہر قارص میں واقع ”نیو لائف پیسٹری شاپ“ کا منظر:

باہر دو دن سے جاری برفباری کے باعث ہر چیز برف کی سفید چادر اڑھ چکی ہے۔ قارص شہر کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کا ڈائریکٹر ”نیو لائف پیسٹری شاپ“ کے ایک کونے میں چائے پی رہا ہے جبکہ ایک نوجوان ان کے سامنے بیٹھا ہے جس کا چہرہ پروفیسر کی طرف اور پوزیشن ایسی کہ وہاں موجود کوئی دوسرا شخص اس کا چہرہ نہ دیکھ سکے۔ ٹی ہاؤس میں دو گاہک اور ہیں لیکن وہ پروفیسر کی میز سے دور دوسرے کونے میں محو گفتگو ہیں جبکہ ٹی ہاؤس کا واحد ویٹر ٹی وی کی آواز اونچی کرکے سیاسی مباحثہ دیکھنے میں مصروف ہے۔

ہیلو سر، پہچانا مجھے؟

معافی چاہتا ہوں، نہیں پہچانا۔

سر مجھے پتہ تھا آپ یہی کہیں گے، ہم پہلے کبھی ملے ہی نہیں تو پہچانیں گے کیسے؟ میں نے کل رات آپ سے ملنے کی کوشش کی تھی، آج صبح بھی۔ کل پولیس نے مجھے کالج کے دروازے پر روک دیا۔ صبح میں کالج کے داخلی دروازے سے اندر جانے میں تو کامیاب ہوگیا تھا لیکن آپ کے سیکرٹری نے ملنے نہیں دیا۔ پھر جب آپ کلاس روم سے نکلے تو میں آپ کے سامنے آ گیا تھا۔ اب کچھ یاد آیا؟

نہیں، یاد نہیں آ رہا، معذرت۔

آپ کے کہنے کامطلب، میرا چہرہ یاد نہیں ہے یا ہماری ملاقات؟

(پروفیسر چڑچڑاہٹ کی کیفیت میں ) بیٹا آپ چاہتے کیا ہیں؟

میں آپ کو سچ بتانا چاہتا ہوں، میں گھنٹوں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں، بلکہ دنوں تک، روئے زمین پر ہر چیز کے بارے میں۔ آپ ہمارے شہر کی نامور، روشن خیال اور تعلیم یافتہ شخصیت ہیں۔ بد قسمتی سے میں تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا لیکن ایک موضوع ہے جس کے بارے میں مجھے کافی کچھ معلوم ہے۔ میں اس موضوع پر آپ سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ معافی چاہتا ہوں سر، لیکن آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔

نہیں نہیں، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سر برا نہ منائیں تو میں بیٹھ جاؤں ادھر؟ ہم ایک اہم ٘موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے والے ہیں۔

پلیز، تشریف رکھیں، آپ میرے مہمان ہیں۔ (کرسی کھینچنے کی آواز آتی ہے )

آپ اخروٹ سے بنی پیسٹری کھا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں توقات میں اخروٹ کے بہت سارے درخت ہیں۔ آپ کبھی توقات گئے ہیں، سر؟

نہیں، مجھے کبھی توقات جانے کا موقع نہیں ملا۔

جب کبھی آپ توقات آئیں تو میرے ہاں ٹھہریں۔ میری پوری زندگی توقات شہر میں گزری ہے۔ توقات شہر بہت ہی خوبصورت ہے۔ ترکی بھی بہت خوبصورت ہے۔ لیکن ہمارے لیے شرمندگی کا مقام ہے کہ ہم اپنے ہی ملک کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ اپنے جیسے لوگوں کے لیے ہمارے دل میں محبت کاجذبہ موجود ہے لیکن ہم ان لوگوں سے زیادہ متاثر ہیں جو ہمارے ملک کی بے عزتی کرتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کے دھوکہ دیتے ہیں۔ اگر میں آپ سے ایک سوال پوچھوں تو آپ برا تو نہیں منائیں گے؟ سر میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ لادین تو نہیں ہیں نا؟

جی نہیں، میں لا دین بالکل بھی نہیں ہوں۔

لوگ کہتے ہیں کہ آپ لادین ہیں، لیکن میں ان باتوں پر دھیان نہیں دیتا۔ آپ جیسے تعلیم یافتہ شخص، اللہ معاف کرے، خدا کے وجود سے انکار کیسے کر سکتا ہے؟ آپ شاید یہودی بھی نہیں ہیں، ہیں نا؟

جی میں یہودی نہیں ہوں

پھر، تو آپ مسلمان ہوں گے؟

جی، اللہ کا شکر ہے میں مسلمان ہوں۔

سر آپ مسکرا رہے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے سوالوں کی جواب سنجیدگی سے دیں۔ اس شدید موسم کے باوجود میں توقات شہر سے صرف اس لیے آپ سے ملنے آیا ہوں تاکہ کچھ سوالوں کا جواب جان سکوں۔

آپ کو بارے میں کس نے بتایا؟

استنبول کے اخبار تو آپ کے بارے میں خاموش ہیں۔ وہاں ایسی کوئی خبر نہیں ہے کہ آپ قرانی تعلیمات کے تحت اپنا سر ڈھانپنے والی لڑکیوں کو کالج میں داخلے سے روکتے ہیں۔ ان اخباروں کو فیشن ماڈلز کے اسکینڈلز چھاپنے سے ہی فرصت کہاں۔ لیکن توقات شہر میں ”پرچم“ کے نام سے ایک مسلم ریڈیو اسٹیشن ہے جو ملک کے کونے کونے میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے ہمیں آگاہ رکھتا ہے۔

میں کبھی کسی مسلمان سے زیادتی کا تصور ہی نہیں کر سکتا، کیونکہ میں خود خدا سے ڈرتا ہوں۔

سر مجھے یہاں تک آنے میں دو دن لگے، خطرناک برفیلی سڑک پر سفر کرکے میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ بس میں بیٹھ کر میں صرف آپ کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ یقین کریں مجھے آپ سے ایسے جواب کی ہی توقع تھی۔ سر، اب میں آپ سے اگلا سوال پوچھتا ہوں۔ پروفیسر نوری یلمز صاحب، اگر آپ خدا سے ڈرتے ہیں، اگر آپ کو یقین ہے کہ قرآن پاک اللہ تعالی کی کتاب ہے تو پھر قران پاک میں سورہ نور کی آیت نمبر 31 کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

ہاں یہ صحیح ہے، اس آیت میں واضح طور پر لکھا ہے کہ مسلمان خواتین کو اپنا سر اور چہرہ ڈھانپ لینا چاہیے۔

مبارک ہو سر، یہ ہوتا ہے برجستہ جواب۔ سر، آپ کی اجازت ہو تو میرا ایک اور سوال ہے۔ آپ پردہ دار لڑکیوں کے کالج میں داخلے پر پابندی کو خدا کے اس حکم کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کریں گے؟

ہم ایک سیکولر ریاست میں رہ رہے ہیں۔ سیکولر ریاست نے اسکولوں، کالجوں اور کلاس رومز میں پردہ کرنے والی لڑکیوں کے داخلے پر پابندی لگائی ہے۔

معذرت کے ساتھ سر، ایک سیکولر ریاست کا قانون خدا کے قانون کو کیسے منسوخ کر سکتا ہے؟

یہ آپ نے اچھا سوال کیا، لیکن سیکولر ریاست کا مطلب ہی یہ ہے کہ مذہب کو ریاست سے الگ تھلک رکھا جائے۔

یہ ایک اورتیر بہدف جواب ہے۔ میں آپ کا ہاتھ چومنا چاہتا ہوں؟ اپنا ہاتھ مجھے دیں (نوجوان، پروفیسر کا ہاتھ چومتے ہوئے ) شکریہ سر، اب آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ میں آپ کی کتنی عزت کرتا ہوں۔ کیا میں ایک اور سوال پوچھ سکتا ہوں سر؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments