بے اولاد جوڑا، آرٹی فیشیل ان سیمینیشن اور شاہ بابا کا مزار


مگراللہ نے نہیں چاہا۔ وٹامنوں کی شیشیاں اور کلومی فین کے بے شمار گولیاں کھانے کے باوجود سلمیٰ بانجھ ہی رہی تھیں۔

بیچ میں نانی جاں نے ایک حکیم صاحب کے کچھ جڑی بوٹیوں سے بھی علاج شروع کرادیا تھا۔ روزانہ رات کو انہیں پانی میں ڈال کر پھُلانا پڑتا پھر صبح تھوڑا سا گرم کرکے نہار منہ پینا پڑتا تھا۔ حکیم صاحب نے کہا تھا کہ یہ نسخہ ان کے آبا و اجداد کے پاس سے ان کے پاس پہنچا ہے اور ناجانے کتنے ہزاروں لاکھوں عورتوں کی جھولی بھرگئی ہے۔ یہ جڑی بوٹیاں بڑی مشکل سے اندرون سندھ دادو کی پہاڑیاں جو سیہون شریف کے ساتھ ہی ہیں وہاں سے لائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی قیمت زیادہ ہے اور یہ اتنی مہنگی ہیں۔ مہنگی ہیں تو کیا ہوا علاج تو ضروری تھا۔

سلمیٰ پھر بھی بانجھ ہی رہی۔

ڈاکٹر ناز نے بہت دنوں تک علاج کیا طاقت کے بہت ساری دوائیں بھی کھلائی گئیں، بہت ساری بوتلیں بھی چڑھائی گئیں پھر آخر کار ڈاکٹر ناز نے سلمیٰ کو مشہور گائیناکولوجسٹ رضیہ رحیم کے پاس بھیج دیا۔ ڈاکٹررضیہ میڈیکل کالج میں پڑھاتی بھی تھیں، شہر کے ایک بہت بڑے میٹرنٹی ہوم کی مالک بھی تھیں اور ایک مہنگے مشہور سینٹر میں بیٹھتی بھی تھیں۔

انہو ں نے پہلے تو سلمیٰ کے بہت سارے ٹیسٹ آغا خان ہسپتال کی لیبارٹری سے کرائے۔ یہ پتہ کرنے کے لئے کہ سلمیٰ کے ہارمون وغیرہ تو درست ہیں جو کہ درست ہی نکلے۔ پھر سلمیٰ کا الٹرا ساؤنڈ کرایا گیا کہ کوئی رسولی وغیرہ تو نہیں ہے لیکن رسولی بھی نہیں تھی۔

بچہ دانی کا مہنگا ایکسرے ہوتا ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ بچہ دانی کے اندر کوئی مسئلہ ہو یا بچہ دانی کے ساتھ لگی ہوئی نالیوں میں کوئی خرابی ہو۔ وہ ایکسرے بھی صحیح نکلا۔

ڈاکٹر رضیہ نے لیبرواسکوپی بھی کر ڈالی۔ لیپرواسکوپ کے ذریعہ پیٹ کے اندر بیضہ دانی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ سلمیٰ کو یاد تھا کہ بے ہوشی سے پہلے آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹر سلمی نے اُسے دلاسا دیا کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ بے ہوش ہوگئی۔ اس کی لیبرواسکوپی بھی ہوگئی اور ساتھ میں صفائی بھی کی گئی اسے بتایا گیا کہ اس کے پیٹ کے اندر سب کچھ ٹھیک ہے دونوں بیضہ دانی، ٹیوب اور بچہ دانی کے باہرکا حصہ۔ سب کچھ صحیح ہونے کے بعد بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔

حکیم، ہومیو پیتھک ڈاکٹر، ڈاکٹر ناز، ڈاکٹر رضیہ اور ہر طرح کے علاج اور روپے پیسے خرچ ہونے کے باوجود سلمیٰ کی گود خالی ہی تھی۔

پھر ڈاکٹر رضیہ نے کہا تھا کہ سلمیٰ کے شوہر کا بھی ٹیسٹ کرنا ہوگا دیکھنا ہوگا کہ کہیں ان میں تو کوئی خرابی نہیں ہے۔ سلمیٰ کے شوہر نے ڈاکٹر رضیہ کے پاس جانے سے منع کردیا تھا۔
مجھ میں خرابی نہیں ہوسکتی ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ اگر میرے جسم میں کوئی خرابی ہوتی تو میں نارمل کیسے ہوتا۔ انہوں نے صاف صاف سلمیٰ سے کہہ دیا۔

سلمیٰ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر رضیہ کا خیال یہ ہے کہ آپ کا ٹیسٹ کرکے دیکھنا ہوگا کہ آپ کے جر ثومے کتنے ہیں اور کیسے ہیں۔
یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔ میں بھی ٹھیک ہوں اور میرے جرثومے بھی ٹھیک ہیں۔ کیا خرابی ہے مجھ میں۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ اگر دوسری شادی کرلوں تو فوراً بچہ بھی ہوجائے گا۔

سلمیٰ ٹھک سے رہ گئی تھی جیسے دل کی حرکت بند ہوگئی ہو جیسے چلتے چلتے سب کچھ رک گیا ہو۔ دنیا کا سارا نظام۔ پھر ایسا لگاجیسے بھراپرا گھر اُس پر آن گرا ہے۔

اس نے تو ایسا سوچا بھی نہ تھا کہ واجد دوسری شادی بھی کرسکتے ہیں۔ اب اس کی سمجھ میں آیا کہ امی جان اور نانی جان اتنی پریشان کیوں ہیں۔ بیوی ہونے کے ناتے اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ لڑکا پیدا کرے۔ اس نے لڑکا تو خیر دور کی بات ہے وہ لڑکی بھی نہیں پیدا کرسکی تھی۔ اس نے ایک لمحے کے لئے گھر میں دوسری عورت کے بارے میں سوچا پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

واجد تھوڑے سے گھبرا سے گئے۔ ارے بھئی میں کون سا دوسری شادی کرنے جارہا ہوں ایک مذاق کی بات تھی۔ مذاق میں بول دی لیکن یہ تم کو بتادوں کہ واجد علی خان میں کوئی خرابی نہیں ہے میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔

بہت دنوں تک ان دونوں کے درمیان اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ وہ دوبارہ ڈاکٹر رضیہ کے پاس گئی۔ ڈاکٹر رضیہ نے اسے سمجھایا کہ بچہ عورت اور مرد مل کر بناتے ہیں۔ صرف دس فیصد جوڑے ایسے ہوتے ہیں جن میں کوئی خرابی بھی نہیں ہوتی ہے اور انہیں بچہ بھی نہیں ہوتا ہے۔ لیکن باقی تمام جوڑوں میں یا تو مرد میں خرابی ہوتی ہے یا پھر عورت میں خرابی ہوتی ہے۔ تم میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ تمہاری ماہواری صحیح ہے تمہاری بچہ دانی بیضہ دانی سب کچھ نارمل ہے اب کسی بھی قسم کی دوا دینے سے پہلے تمہارے شوہر کاٹیسٹ کرنا ضروری ہے۔

مگر ڈاکٹر صاحب وہ تو آپ کے پاس آنے کو تیار ہی نہیں ہیں سلمیٰ نے بڑی بے بسی سے بتایا۔
ڈاکٹر رضیہ نے سلمیٰ کو میرا پتہ دیا تھا اور میرے نام خط جس میں تمام تفصیلات لکھی ہوئی تھیں۔
بڑی جدوجہد او رکاوشوں کے بعد واجد علی خان اس بات پر تیار ہوئے کہ وہ میرے پاس آئیں گے۔

ڈاکٹر رضیہ کا خط پڑھنے کے بعد بڑی تفصیل سے میں نے دونوں کو سمجھایا کہ اب اتنا پیسہ خرچ کرانے کے بعد اور ہر قسم کا ٹیسٹ کرنے کے بعد ضروری ہے کہ واجد صاحب کا ٹیسٹ کرایا جائے۔ بلکہ اصولی بات تو یہ ہے کہ بانجھ پن کے مریضوں میں سب سے پہلے کوئی دوا دینے سے قبل شوہر کا ٹیسٹ کرانا چاہیے۔ کیونکہ شوہر کا تو ایک ہی ٹیسٹ ہوتا ہے اور عورتوں کے کئی ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ اگر شوہر کے ٹیسٹ میں ہی خرابی نکل جائے تو پھر بیوی کے ٹیسٹ کرانا اور ان میں پیسہ ضائع کرنا بیکار ہوتا ہے۔ یہ بات واجد صاحب کی سمجھ میں آ تو گئی مگر ان کے انداز سے یہی محسوس ہوا تھا کہ وہ میری بات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments