بے اولاد جوڑا، آرٹی فیشیل ان سیمینیشن اور شاہ بابا کا مزار


مزید گفت وشنید کے بعد وہ راضی ہوئے کہ وہ اپنا بھی ٹیسٹ کرالیں گے۔ اس روز وہ دونوں وہ ٹیسٹ ہی لے کر آئے تھے۔ صدر کے دی لیب میں ہونے والے ٹیسٹ کے مطابق یہ بات واضح تھی کہ خرابی واجد صاحب میں ہی تھی اور ان کا جسم جرثومے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔
جب یہ بات میں نے انہیں بتائی تو انہیں جیسے یقین نہیں آیا۔ ڈاکٹر صاحب کسی اور جگہ یہ ٹیسٹ دہرانے کی ضرورت تو نہیں ہے۔

دہرانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ دہرا بھی سکتے ہیں لیکن آپ کی کیس فائل پڑھنے کے بعد اوراب آپ کا معائنہ کرنے کے بعد مجھے پورا یقین ہے کہ یہ ٹیسٹ بالکل صحیح ہے اور اس لیبارٹری میں آپ کو بھیجنے کا مطلب بھی یہی تھا کہ آپ کا ٹیسٹ بہت احتیاط سے کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ان لوگوں نے آپ کے دیے ہوئے پانی کا کم از کم تین دفعہ ٹیسٹ کیا ہوگا۔

سلمیٰ کی آنکھوں میں آنسو جھل مِلا رہے تھے مجھے اندازہ تھا کہ اس کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی۔ کس کس طرح کے طعنے اسے ملے ہوں گے۔ ہر طرح کی دوا اس نے کھائی ہوگی۔ تعویز باندھے ہوں گے۔ کبھی خون کا ٹیسٹ تو کبھی الٹرا ساؤنڈ، کبھی لپرا اسکوپی تو کبھی بچہ دانی کا ایکس رے اور کبھی صفائی کا آپریشن۔ اسے ایسا لگ رہا ہوگا جیسے اس کا جسم چھلنی ہوگیا ہے۔ ایسا تو میں روز دیکھتا تھا، سلمیٰ جیسی لڑکیاں اور واجد جیسے لوگ۔

ارٹی فیشل ان سی می نیشن شوہر کے ذریعے تو آپ کے کیس میں نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ آپ میں جرثومے تو ہیں ہی نہیں اور صرف پانی ٹیوب کے ذریعے بچہ دانی میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آرٹی فیشل ان سی می نیشن ڈونر کے ذریعے کیا جاسکتا ہے مگر آپ لوگ مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے چاروں شریعت میرا مطلب ہے کہ حنفی، حنبلی، شافعی اور مالکی میں اس طریقہ کی ممانعت ہے۔ آپ کی بات صحیح ہے کہ اس طرح سے آپ کا مسئلہ نہیں حل ہوسکتا ہے۔

واجد مجھے غور سے دیکھتے رہے پھر کہنے لگے ڈاکٹر صاحب اگر میں دوسری شادی کرلوں تو شاید یہ کام ہوجائے کیونکہ ویسے تو مجھ سے میں کوئی کمزوری وغیرہ نہیں ہے۔

میرا دل چاہا کہ میں دروازہ کھول کر بدتمیزی سے انہیں دھکے دے کر باہر نکال دوں لیکن یہ میں نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یہ روز کا قصہ تھا ہر دوسرے تیسرے بانجھ پن کے جوڑوں میں مرد اس نتیجہ کو قبول نہیں کرتے ان کا اصرار یہی ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب دوسری شادی سے تو مسئلہ حل ہوجائے گانا۔

میں نے دوبارہ واجد صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی اور نا کام ہوگیا۔

دو سال کے بعد ہسپتال میں سلمیٰ سے ملاقات ہوگئی۔ میں اپنے مریضوں کو دیکھ کر سیڑھی اُتررہا تھا تو میں نے دیکھا کہ سلمیٰ کاریڈور میں کھڑی ہیں، اس نے مجھے سلام کیا مجھے اس کی شکل کچھ دیکھی ہوئی لگی تھی میں رک کر سوچ ہی رہاتھا کہ مجھے واجد صاحب یاد آگئے پھر سلمیٰ کی پوری کہانی میرے دماغ میں ایک جھماکے سے روشن ہوگئی۔ میں بھی اسے فوراً پہچان گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے سوکن کی دیکھ بھال کررہی ہے۔ کل ہی اس کا لڑکا پیدا ہوا ہے یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی تھی۔

میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا میں کچھ کہہ بھی نہیں پایا کہ اس نے بتایا کہ شادی کے فوراً بعداس کی خالہ اماں اس کی سوکن کو شاہ بابا کے مزار پر لے گئی تھیں۔ وہ تو بڑے پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ وہاں کا عرس، وہاں کا دھمال سب کچھ مشہور تھا وہاں تو بڑے بڑے کام ہوجاتے ہیں۔ بے روزگاروں کو نوکری ملتی ہے، رکی ہوئی شادیاں ہوجاتی ہیں، کھوئے ہوئے بچے مل جاتے ہیں اور بانجھ عورتوں کو بچے ہوجاتے ہیں۔

تھوڑی دیر کے لئے وہ رکی۔ پھر آہستہ آہستہ سے بولی۔ ڈاکٹر صاحب دھمال والی رات سے آنے کے کچھ ہی ہفتوں کے بعد اسے الٹیاں شروع ہوگئیں اور اب دیکھیں لڑکا بھی ہوگیا ہے۔ شاید میرے شوہر صحیح کہتے تھے۔

میں فوری طور پر کچھ نہیں کہہ سکا۔ میں نے دبے دبے لفظوں میں سلمیٰ کو مبارک باد دی اور یہ سوچتا ہوا باہر نکل گیا کہ کاش مجھے ڈونر آرٹی فیشل ان سی می نیشن کا یہ طریقہ پتہ ہوتا تو شاید سلمیٰ کو بھی میں شاہ بابا کے مزار پر بھیج دیتا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments