ہم مصیبت سے بھی منافع کمانے والے لوگ ہیں


چین کا ان دنوں مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے۔ اس ملک نے ماوزے تنگ سے لے کر آج تک ان بہت محنت کی ہے۔ کچھ دن پہلے میں نے ایک خبر سنی کہ ہمارے لوگ چین میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کل جس ملک میں جانے کا سب کو اشتیاق تھا آج اس ملک میں رہ جانے والے لوگوں کو ہم اس کرونا وائرس کی مصیبت کی وجہ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگ وہاں پھنسے ہوئے ہوئے ہیں۔ چین اور ہمارے ملک کی حکمران طبقے کے مفادات کے لئے کچھ غلط فیصلوں سے لے کر اس کے لئے نرم گوشہ رکھنے اور واری واری جانے کی وجہ سے ہم کافی تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس وقت سچ میں مجھے چین کا درد ستا رہا ہے جس طرح سے وہ مقابلہ کر رہا ہے میں دعاگو ہوں کہ چین اس کڑے امتحان سے سرخرو ہوکر نکلے۔ اور دوبارہ اسی حالت میں کھڑا ہوجائے۔

مصیبت سے لڑنے کا سب سے پہلا مضبوط محاذ یہ ہے کہ ملک کی عوام حکمران ایک ہوجائیں اور اپنی انفرادیت کو اس وقت قربان کردیں جس وقت اجتماعیت کو خطرہ لاحق ہو۔ جو کہ افسوس کے ساتھ کہتا ہوں ہم میں نظر نہیں آتا۔ آج صبح صبح ڈان نیوز کی ایک رپورٹ دیکھی جس میں میں بتا رہے تھے کہ کیماڑی میں زہریلی گیس کے اخراج کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہوگیا ہے تو ماسک کی شدید ضرورت پڑ رہی ہے۔ دوسری طرف دکاندار حضرات نے 5 روپے والے ماسک کی قیمت 100 روپے کر دی ہے۔

جب دکانداروں کے چہرے دکھائے گئے تو دکاندار الحمدللہ سنت کے پابند بڑی بڑی داڑہیوں والے تھے جو پیچھے سے مال شارٹ ہونے کا رونا رو رہے تھے۔ اچانک ہی ہر دن کی طرح اس قوم کی حالت زار پر رونا آیا اور دل سے دعا نکلی کہ اے خدا ان لوگوں پر کوئی ایسی مصیبت نا ڈالنا یہ مصیبت سے لڑنے والے لوگ نہیں۔ یہ مصیبت سے بھی منافع کماتے ہیں۔

ہمارے لوگ تو خیر، ہمارے حکمران تک مصیبت سے فائدہ اٹھا گئے۔ سابق وزیر اعظم کو جب سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے ایک ہار ملا تو اس بے مجبوروں کو دینے کے بجائے اسے اپنی بیوی کے گلے میں ڈالنا مناسب سمجھا۔ ایسے ہمارا ماضی انفرادیت پر اجتماعیت کو قربان کرنے والی کہانیوں سے بھرا ملے گا۔ جانے کیسے لوگ ہیں ہم۔ لیکن یہی لوگ آپ دیکھیں گے ان سے ملیں تو یہ آپ کو بتائیں گے کہ ان کو دنیا کی اصلاح کا اتنا شدید درد ہوگا۔

یہ امت مسلمہ سے لے کر کفار تک کی اصلاح کرنے کے وعدے کرتے دکھائی دیں گے۔ اور جب آپ اٹھیں گے تو جو دودھ بیچنے کے لئے بیٹھا ہوگا وہ سانس لے کر امت کے غم سے تھوڑی رہائی پا کر پانی کا گلاس بھر کہ دودھ میں ملا دیگا۔ ناجائز منافع خوری کرے گا، ذخیرہ اندوزی کرے گا، اور ہر وہ کام کرے گا جس سے زیادہ سے زیادہ منافع کما سکے۔ اس شخص کے دل میں دنیا کا درد ملے گا لیکن اپنے محلے شہر والوں کا کوئی احساس نہیں ہوگا جن کی ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ سے وہ کھال اتار رہا ہے۔

کچھ دن سے کچھ تصاویر گردش کر رہی تھیں کہ چین کے شہر ووہان جانے والے ڈاکٹرز اپنے جوڑوں کے ساتھ شاید آخری ملاقات سمجھ کر جا رہے تھے۔ ان کے چہرے پر عجیب قسم کی روشنی اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ روشنی اس جذبے کی تھی جو اپنے ملک کے منجھ دھار میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کا تھا۔ مجھے یہ ڈاکٹرز ان مجاہدوں کی طرح لگے جو اپنے لوگوں کو حملہ آورں کے ظلم سے بچانے کے لئے محاذ پر جانے سے پہلے اپنی ماں کے قدم چومتے ہیں۔ اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہیں جس کہ تن پہ پہنا لال جوڑا کبھی سفید تو کبھی سیاہ نظر آتا ہے۔ پھر منہ پھیر کر بچوں کہ طرف دیکھتے ہیں وہ حسرت بھری نگاہیں جن کے سر پر اس مجاہد کو کبھی آسمان نظر آتا ہے تو کبھی اسے دکھائی دیتا ہے کہ اس کا بچہ تنہا سماج کی بے حسی سے لڑ رہا ہے۔ وہیں دریچوں سے جھانکتی کنواری بہنیں بھی یہ منظر دیکھ رہی ہوتی ہیں دور چار پائی پر شکستہ باپ جو کبھی اپنی لاٹھی کی طرف دیکھتا ہے تو کبھی اپنے بیٹے کی طرف۔

ووہان جانے والے ڈاکٹرز میں سے کسی نے استعفیٰ نہیں دیا کسی نے موت کے منہ میں جانے سے انکار نہیں کیا یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ اس وائرس کی سب سے پہلے خبر دینے والا ڈاکٹر زندگی کی جنگ ہار گیا جسے ملکی ایجنسیز نے پہلے غدار اور بعد میں ہیرو قرار دیا۔ یہ ایک عام رویہ تھا جس کا ڈاکٹر لی وینلیاگ نے سامنا کیا۔ ڈاکٹر لی کی ذہانت نے اسے غداری کا سرٹیفیکیٹ دلایا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آگ لگ رہی ہے تو سب نے کہا کہ جھوٹا ہے۔ جب گھر جلنا شروع ہوا تو سب نے کہا کہ سچا تھا۔ ایسے ہوتا ہے اور ہمارے ملک میں تو اکثر ہوتا رہا ہے۔ پھر بھی چین نے ایمرجنسی میں ہسپتال بنا کر اور بنا کسی جھولی پھیلائے لڑ رہا ہے اور وہ کامیاب ہوجائے گا کیوں کہ وہ اکیلا نہیں، مصیبت میں گھرے لوگ اکیلے نہیں، پوری قوم ان کے ساتھ ہے۔

میں نے اجتماعی مفادات پر انفرادی مفادات قربان کرنے۔ اور اپنے لوگوں کی مصیبت سے فائد نا اٹھانے کی اعلی مثال جاپان کی ایک رپورٹ پڑھ کر جانی۔ مجھے یاد ہے میں نے رپورٹ پڑھ کر ٹھنڈی سانس لے کر اس وقت کہا تھا کہ ان لوگوں کو کوئی مٹا نہیں سکتا شاید خدا بھی نہیں۔ سب جانتے ہیں جب جاپان میں سمندری طوفان آیا تو بڑی تباہی ہوئی تھی اس وقت بی بی سی نے ایک بڑھیا کی رپورٹ دی تھی جو متاثرہ علاقے میں ایک دکان سجائے بیٹھی تھی۔

رپورٹر اچانک دیکھتا ہے کہ متاثرہ علاقے میں ایک کوئی اسی سال کی بوڑہی عورت ایک الیکٹرک کے سامان کی دکان سجائے بیٹھی ہے۔ جب رپورٹر نے اس بڑھیا سے ریٹ پوچھے تو وہ حیران رہ گیا کہ وہ ہول سیل پر وہ چیزیں بیچ رہی تھی۔ رپورٹر نے اس سے سوال کیا کہ بڑھیا کیا تم پاگل ہو؟ یہ ہول سیل مارکیٹ کے ریٹ ہیں تمہیں کیا فائدہ؟ بڑھیا نے جواب دیا کہ میں اپنے لوگوں کی اس مصیبت کے وقت میں اپنا حصہ ڈال رہی ہوں۔ میں اس مصیبت میں اپنے لوگوں سے منافع نہیں کما سکتی۔ نا میں ان کے اجڑے گھر بنوا سکتئی ہوں لیکن جو میرے بس میں ہے وہ کر رہی ہوں۔ میں مارکیٹ جاتی ہوں ہول سیل مارکیٹ سے سامان خرید کر اسی ریٹ پر ان کو بیچتی ہوں۔ اور کیوں نا یہ لوگ ہیروشیما ناگاساکی اور سونامی جیسی مصیبتوں سے نکل کر کھڑے ہوجائیں۔ کیوں نا یہ لوگ آباد رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments