بارے کچھ بیان پاکستانی پختونوں کا!


جنگل میں شیر کا بیٹا قتل کی اندھی واردات میں مارا گیا تو شک کی بنیاد پر کئی ایک طاقتوروں کو دھر لیا گیا۔ اسی ایف آئی آر میں کہیں سے ایک چوہیا کا نام بھی شامل ہو گیا۔ اب جب کہ سب نامزد ملزمان اپنی اپنی صفائیاں دیتے چھپتے پھرتے، چوہیا مگر سینہ پھلائے ہر ایک کو بتاتی پائی گئی کہ اس کا نام بھی مشکوک قاتلوں کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ اس لطیفے کا خلاصہ ہے جسے لندن میں مقیم گل بخاری صاحبہ نے حال ہی میں ری ٹویٹ کیا ہے۔

میں نہیں جانتا کہ گل صاحبہ کو لطیفہ سمجھ میں آیا یا کہ نہیں، تاہم وہ اس بات پر اتراتی پھررہی ہیں کہ پاکستان نے ان کے خلاف برطانیہ کی حکومت سے شکایت کی ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ہمیں کیا سوجھی کہ خاتون کا مقدمہ وہاں کی حکومت کے پاس لے پہنچے۔ مانا کہ گل بخاری اپنے ٹویٹر اکاؤ نٹ پر فحش گالیاں لکھتی ہیں، لیکن کیا یہ ضروری تھا کہ ان کو اہمیت دی جاتی۔ مریم نوازکی پراسرار خاموشی سے قبل خاتون ان کے ساتھ کھڑی تھیں۔ مریم سے مایوس ہو جانے کے بعداب ان کی تمام تر امیدیں ان سے وابستہ ہیں جو پختونوں کے آئینی حقوق کی جدوجہد کا دعوی لئے پاکستانی اداروں پرحملہ آور ہیں۔

کچھ اچھی خبریں بھی آرہی ہیں۔ پاکستان نے بھارت کو ہرا کر کبڈی کا عالمی کپ جیت لیا ہے۔ ابھی چند روز پہلے کرکٹ ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایک اننگز اور 44 رنز سے شکست دی۔ پاکستان کی اس شاندار فتح میں یاسر شاہ اور نسیم شاہ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دونوں نوجوان کھلاڑی پاکستانی پختون ہیں۔ فتح کے بعد سولہ سالہ نسیم شاہ ٹی وی پر مخصوص پختون لہجے میں اپنے وطن کے لئے مزید کچھ کرگزرنے کے عزم کا ارادہ کرتے ہوئے نظرآئے۔ نامساعد حالات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والا نوجوان نسیم شاہ ہماری نئی نسل کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ عناصر جولال ٹوپیاں اوڑھے پختونوں کے آئینی حقوق کے نام پر نفرت اور تفریق کا کاروبار کرتے ہیں، اس نوخیز پختون کے انٹرویو کو کم از کم ایک بار ضرور دیکھیں۔

ستمبر 2001 ء کے بعد امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو طاقت کے نشے میں دھت اور غصے سے بے حال واحد عالمی طاقت نے دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا تھا کہ ’تم ہمارے ساتھ یا ہمارے ساتھ نہیں ہو‘ ۔ خطے کا ایک اہم ملک امریکہ کے سامنے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے بچھا چلا جا رہا تھا۔ حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے کئی دوسروں کی طرح پاکستان نے بھی دہشت گردی کی جنگ میں غیر مشروط تعاون کا فیصلہ کیا۔ جنگ نے توقع کے برعکس طول پکڑا تو بے شمار قربانیوں کے باوجود پاکستان بوجوہ چند گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے میں پس و پیش سے کام لیتا رہا۔

ایک طرف دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں یکسو رہے تو دوسری جانب ان سے برسرِ پیکار عالمی اتحاد کے ارکان باہم دست وگریبان رہتے۔ آئے روز پاکستان اور بالخصوص ہمارے سیکیورٹی اداروں کو افغانستان میں اتحادی اور افغان فوجیوں کی ہلاکتوں کے لئے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا۔ شنید ہے کہ بداعتمادی کے اس ماحول میں پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے کچھ مغربی ممالک نے بہت سے دوسرے ہتھکنڈوں کے علاوہ ہمارے قبائلی علاقوں سے کچھ نوجوانوں پر سرمایہ کاری کا سوچا۔ منتخب نوجوانوں کو بالاہتمام چند ایک یورپی دارالحکومتوں میں لے جایا گیا کہ جن کے ذمہ بعد ازاں قبائلی عوام کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ سرحد کے دو اطراف تباہی کا باعث کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی دو عملی ہے۔

اپنی قبائلی پٹی میں پاک فوج کی فیصلہ کن کارروائی کے نتیجے میں جہاں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹی تو وہیں لاکھوں افراد بے گھر ہوکر اپنے ہی ملک میں پناہ گزین ٹھہرے۔ جان و مال کی تباہی نے پہلے سے پسماندہ خطے کو روند کر رکھ ڈالا تھا۔ خاک و خون کے ماحول میں پل کر جوان ہونے والی نسل میں قتل و غارت سے بے زاری کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ دہشت گردوں کی پسپائی کے بعد خطہ جس رفتار سے تعمیر نو کا متقاضی تھا، اس میں ہم ناکام رہے۔

کئی ایک دیگر وجوہ کی بناء پر قبائلی پختونوں میں احساس محرومی بڑھتا چلا گیا۔ فطرتی طور پر صورت حال کسی بھی ایسی تحریک کے لئے نہایت ساز گار تھی کہ جس میں معصوم زخم خوردہ عوام کے جذبات کا استحصال کیا جاسکے۔ چنانچہ پاکستان کی پختون پٹی میں حقوق کے نام پرابتدائی طور پر چند مناسب مطالبات کی بنیاد پر ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا گیا کہ جس کے اہداف ہر گزرتے دن بدلتے رہتے۔

امن اور حقوق کے نام پر قائم اس تحریک کے حامیوں کی اکثریت سرحد پار ٹھکانوں سے سوشل میڈیا پرسرگرمِ عمل رہتی ہے۔ ان عناصر کے اکاؤنٹس پر گاندھی، نیلسن منڈیلا، باچا خان، حتّٰی کہ مارٹن لوتھر کنگ کی تصاویر کے کامبو (combo) اور اقوال جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قائدِ اعظم کا ذکر مگر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ کیا مذکورہ مشاہیر قائدِ اعظم سے بڑھ کر آئینی حقوق اور قانون کی عملداری کے داعی تھے، یا کہ پھر اہداف کچھ اور ہیں؟

تحریک کے لیڈر غیر پختون پاکستانیوں کی سرِ عام تذلیل کرتے ہیں کہ دوسرے بھی پلٹ کر وار کریں۔ مقصود نفرت پھیلانے کے سوا اور کیا ہے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دہشت گردی کی ہولناکی میں تو اے این پی نے لازوال استقامت کا مظاہرہ کیا تھا، مگر دہشت گردوں کی بیخ کنی کے بعد خطے کی تعمیرِ نو اور قبائلیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے اس کے کئی معروف رہنماء متروک پختونستان کے مردے کو ہوا دینے بیٹھ گئے۔ یہ بھول گئے کہ پاکستان کے پشتون کاروبار مملکت، سیاست، پیشہ سپہ گری، صنعت و حرفت، ثقافت اور کھیل کے میدانوں میں اپنا سکہ منوا چکے۔ یہ بھی یاد نہ رہا کہ پختونخواہ، سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں بسنے والے پختون پاکستان کے ہیں اوراب پاکستان ہی ان کا وطن ہے۔

یاد رکھنے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے ہر صوبے کی مٹی اور اس میں بہنے والے دریاؤں کے پانی میں لاکھوں پاکستانیوں کے خون اور پسینے کی خوشبو رچی بسی ہے۔ پختونوں کو اس مٹی سے اکھاڑ کے کہیں اور جوڑنا اب کسی کے بس کی بات نہیں۔ باچاخان اور ولی خان جیسے عالی دماغ حقیقت کو جان گئے تھے۔ منظور پشین کہ جو پاکستان نہیں پختون پٹی کو اپنا وطن کہتے ہیں، نیم خواندہ ہیں جبکہ سیاسی شعورسے محرومی کا انہیں خود اعتراف ہے۔ خود کو مگر باچاخان اور ولی خان کی صف میں شمار کرتے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ ایک نا ایک دن ان کو بھی حقیقت کا ادراک ہو ہی جائے گا۔ شام کو گھرلوٹ ہی آئیں گے۔

پاکستان معاشی طور پر کمزور اور معاشی بے انصافی کا شکار معاشرہ ہے۔ یہ بے ترتیبی، استحصال اور نا انصافی مگر کسی ایک صوبے یا خطے سے متعلق نہیں۔ ملک ایک طویل جنگ کے اندھیرے سے ابھرا ہے۔ اب تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسی دور میں ’چی گویروں‘ کی نہیں، نسیم شاہ جیسے پرعزم نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ’گل بخاری‘ کا معاملہ ہے، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی مناسب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments