پاکستانی پرُامن چہرے کو دھندلانے کی سازش


انسانیت اورامن کے دشمنوں نے ایک مرتبہ پھرکوئٹہ کو خون میں نہلادیا، اس قابل رحم شہرمیں ایک بار پھر بے گناہ پختونوں، بلوچوں کی دو درجن سے زیادہ لاشیں گرادی گئیں اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں ایک بار پھر درجنوں گھرانے اجڑ گئے، بے شماربچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوگئیں ہیں۔ حسب معمول وزیراعظم، صدر، وزرائے اعلی اور گورنرزصاحباں کی طرف سے مذمتی بیانات جاری کردیئے گئے ہیں کہ دہشتگرد کسی رعایت کے مستحق نہیں، ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔

اس دھماکے کے پیچھے بھی بہت جلد انڈیا کے جاسوسی ادارے را یا افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کا ہاتھ نظرآجائے گا، اس کے بعدپھر کیاہوگا، پھر وہی کچھ ہوگا جو ہرسانحے کے ہفتہ دس دن بعد ہوتا ہے۔ اس شہر مظلوم میں معمولات زندگی پھر سے بحال ہونا شروع ہوجائیں گے اور لوگ ایک نئے سانحے تک اپنے کاموں پر لگ جائیں گے، یہ حکومت کا دہشتگردی اورانتہا پسندی کے خلاف بیانیہ اور لائحہ عمل ہے کہ جس پر ہماری سرکار بیس سال سے عمل پیرا ہے۔

سوال یہ نہیں کہ دہشتگرد اور انتہا پسندکیوں دہشتگردی سے بازنہیں آرہے، بلکہ قوم یہ پوچھ رہی ہے کہ بیس سال سے اس عفریت کوللکارنے والی سرکار آخر ناکام اور بے بس کیوں دکھائی دیتی ہے؟ درجن بھر آپریشنز کرنے کے باوجود مٹھی بھر دہشتگردوں کا صفایا کیوں نہیں ہوپارہا ہے؟ پشاور اے پی ایس پر حملے کے بعدبیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، اگراس پلان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہوجاتا تو انسانیت کے دشمنوں کا مکمل صفایا ہو جانا تھا، مگرپتہ نہیں کو نسی مصلحت ومفادات آڑے آئے کہ ایسانہیں ہو سکا اور حکمرانوں کی کوتاہیوں اور نا اہلیوں کی سزائیں بے قصور عوام بھگت رہے ہیں۔

یہ امرواضح ہے کہ نائن الیون کا شاخسانہ ہی ہے جو پاکستان اب تک بھگت رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ دیتے ہوئے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں امریکہ کی جنگ پاکستان کے گلے پڑ گئی اور پاکستان کا چپہ چپہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا، روزانہ کی بنیاد پر دھماکے اور خودکش حملے معمول بن چکا تھاجس کے نتیجے میں کئی بے قصورجانیں ضائع ہوجاتیں تھیں، ان تمام کارروائیوں کے پیچھے تحریک طالبان، ہر دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرتی نظر آتی رہی ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے خلاف ملک بھر میں مختلف اپریشنز شروع کیے گئے جن میں ضرب عضب ’ردالفساد‘ خیبر 4 اور کومبنگ جیسے مؤثر اپریشن کرکے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی، اسی تنا ظر میں مختلف کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی گئی، ان اپریشنز میں پاک فوج کے افسران اور اہلکاروں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے ملک میں امن قائم کیا ہے۔ پاک آرمی نے عوام کے تعاون سے دہشت گردوں کا مکمل قلع قمع کردیا ہے، لیکن ان کی باقیات اب بھی کہیں نہ کہیں چھپے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں، انہیں جب بھی موقع ملتا ہے، وہ کہیں نہ کہیں واردات کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور دوسرے جاری اپریشنز کا دائرہ کار وسیع کرکے دہشت گردوں کے باقیات کے خلاف مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بظاہر ماضی کے مقابلہ میں مجموعی طور پر بہتر قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم دہشت گردی کی بجھی ہوئی راکھ میں چنگاریاں ابھی باقی ہیں۔ سانپ تو مر گئے ہیں، لیکن سنپولیے باقی ہیں جن کا تدارک ازبس ضروری ہے۔ دھماکے میں غیرملکی ہاتھ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کوئٹہ دھماکہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان کے دورہ پر ہیں، انہوں نے بھی امن و سلامتی کے لئے پاکستانی کوششوں کی تعریف کی ہے جس سے دنیا میں پاکستان کی ایک پرامن ملک کے طور پر شناخت ابھر کر سامنے آئی ہے۔

دوسر ی جانب وطن عزیز میں سکیورٹی رسک کے خدشات کو ختم کرنے کے لئے کھیلوں کے فروغ کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں اس قسم کے جان لیوا دھماکے ملک میں کی گئی امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی گھناؤنی کوشش ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کوئٹہ سمیت ایسے دیگر حساس شہروں پر کڑی نظر رکھنے کے ساتھ چیکنگ کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ پاک فوج کی کوششوں سے فساد زدہ علاقوں میں امن عامہ کے لئے جو سازگار ماحول بنایا گیا ہے اسے برقرار رکھا جا سکے۔ حکومت سول وعسکری قیادت کے ایک پیج پر ہونے کی دعویدارہوتے ہوئے، کیا وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر منوعن عمل نہیں کر پا رہی ہے، جب تک دہشت گردوں کے باقیات کے ساتھ اُن کے سہولت کاروں کا بھی مکمل سد باب نہیں کیا جائے گا، دہشت کے ناسور کو جڑسے اُکھاڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

اس وقت پاکستان دنیا عالم میں اپنا کردار بڑھاتے ہوئے ایک نئے اسلامی ومعاشی اور فوجی بلاک کے لیے سرگرم عمل ہے، آئی ایم ایف کی ٹیم نے ملکی معیشت پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے، ملک میں کبڈی ورلڈ کپ کے بعد پی ایس ایل شروع ہونے جارہا ہے، اس میں شرکت کے لیے انٹر نیشنل کھلاڑی آرہے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ کامیابیاں بھارت اور بھارت نواز افغان ایجنسیوں کو کیسے برداشت ہو سکتی ہیں، سی پیک انہیں پہلے ہی ہضم نہیں ہو رہا تھا، اب وسیع پیمانے پراتنی سفارتی سرگرمیاں بھلا کیسے برداشت ہو سکتی ہیں، اس لیے دشمن قوتیں سازشی چالیں چلنے میں کوشاں ہیں، پا کستان کو ملک دشمن قوتوں کی سازشوں سے باخبر رہنا ہو گا۔

کوئٹہ دہشت گردی پا کستانی چہرے کو دھندلانے کی گہری سازش ہے، ایسے موقع پر جب کہ ملکی امن و معیشت اپنے پاؤ پر کھڑی ہو نے جارہی ہے، عوام کو فورسز کے ساتھ متحد ہوکر دشمن کی سازشوں کو حوصلے کے ساتھ ناکام بنانا ہو گا۔ یہ مٹھی بھر دہشت گردوں کے باقیات بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ پا کستان پہلے بھی بحیثیت قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرخرو ٹھہرا ہے اور آئندہ بھی قومی یکجہتی ہمیں قیام امن کی کا میاب منزل تک پہنچاسکتی ہے، کیو نکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جیت رہا ہے، جبکہ مخالفین اپنی بقا کی آخری جنگ بھی ہارتے نظر آرہے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سفارتی محاذ پر سمیٹی جانے والی کا میابیوں پر آنچ نہ آنے دی جائے، اس کے لئے سول و عسکری قیادت کے ساتھ عوام کو بھی اپنا بھر پور کر دار ادا کر نا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments