بیٹیاں تو قرار ہو تی ہیں


چند سال پہلے کا واقعہ ہے۔ راولپنڈی کے ایک پرائیویٹ کلینک کے آپریشن روم کے باہر بارہ پندرہ مرد و خواتین جمع تھے۔ اندر ایک خاتون کا سیزیرین ہو رہا تھا۔ باہر موجود تمام لوگ اس خاتون کے قریبی عزیز تھے اور ہر ایک کی خواہش تھی کہ پہلی اولاد نرینہ ہو۔ لہٰذا سبھی دست بدعا تھے کہ اللہ تعالٰی بیٹے کی دولت سے نوازے۔

ہمارے معاشرے میں اولاد نرینہ کی خواہش فطرت ثانیہ بن کر سماجی بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مختلف دینی محافل میں مولوی صاحب بھی اپنی طویل، پر سوز مگر نمائشی دعا میں بے اولادوں کے لیے لہک لہک کر اللہ تعالٰی سے اولاد نرینہ ہی مانگتے ہیں۔ ہم نے کئی بار مسجد میں امام صاحب کو یہی دعا ر قت انگیز لب و لہجے میں مانگتے اور حاضرین کو بہ آواز بلند آمین ثمہ آمین کہتے سنا ہے۔ بیٹوں کو ہم دل کا سرور اور آنکھ کا نور کہتے ہیں چاہے بقول خالد مسعود خان صورت حال کچھ یوں ہو

پانویں آکا باکا تلی تلا کا ہوتا ہے

ماں کو فیر وی پیارا اپنا ہی کاکا ہوتا ہے

دو گھنٹے بعد ڈاکٹر نے خوشخبری دی کہ گول مٹول سی بیٹی پیدا ہوئی ہے اور زچہ و بچہ دونوں ٹھیک ہیں۔ یہ سن کر وہاں موجود سب عزیز و اقرب نے اللہ کا شکر ادا کیا مگر ہم نے دیکھا اکثر لوگ خاص طور خواتین کے چہروں پر خوشی کے رنگوں کے ساتھ اداسی اور تشویش کی پر چھائیاں بھی تھیں۔ تمام لوگ نومولود کے نوجوان باپ کے اردگرد اکٹھے ہو گئے جن کے چہروں پر خوشی و نشاط کے ساتھ افسردگی و ملال کے تاثرات بھی تھے۔ وجہ یہ تھی کہ نو مولود ننھی پری کے دادا جان اس کی ولادت سے محض تین ماہ سترہ دن پیشتر اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ ان کے گلشن میں بیٹی کی شکل میں کوئی پھول نہیں کھلا تھا مگر اب وہ پوتی کی صورت میں اپنے سونے آنگن کو مہکتا چہکتا اور ہمکتا دمکتا دیکھ کر بہت خوش تھے مگر دست اجل نے انہیں یہ موقع نہیں دیا کہ وہ اپنے لخت جگر کے جگر کے ٹکڑے کو آغوش میں لے کر پیار سکیں۔

اب وہاں موجود خاندان کے تمام لوگ انہیں یاد کر کے غم آگیں خوشی یا مسرت انگیز ملال کا جشن منا رہے تھے۔ جذباتی ماحول دیکھ کر ایک بزرگ ان کے پاس آئے۔ وہ سمجھے یہ سب لوگ بیٹی کی پیدائش پر سوگوار اور اشکبار ہیں۔ انہوں نے نو مولود کے باپ کے بارے میں پوچھا اور بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے اس کے پاس آکر اس کے کاندھے تھپتھپا کر بیٹی کی پیدائش پر باقاعدہ تعزیت کی۔

والدین نے اس گول مٹول سی بچی کانام کشمیر کی عظیم درویش صفت خاتون حبہ خاتون کے اصل نام سے مستعار لے کر ”زون“ رکھا۔ وقت کا پنچھی اڑتا رہا۔ ماہ و سال گزرتے رہے اور وہ بچی بھی تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی اور ساتھ ہی چھوٹی سی عمر میں زندگی کی کتاب سمیت ہزاروں کتابیں بھی پڑھ لیں۔ سکالر شپ پر راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ ہوا اور الحمدو للہ آج چوتھے سال میں ہے۔ انشا اللہ ایک سال بعد ڈاکٹر بن جائے گی۔ اس کا ارادہ باہر کے کسی ملک میں سپیشلائزیشن کرنے کا ہے۔ اس کا فخر و اعزاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خاندان کی پہلی ڈاکٹر ہو گی۔ یقیناً اس نے پورے خاندان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔

بیس اکیس سال پہلے پرائیویٹ کلینک میں جنم لینے والی گول مٹول سی لڑکی ( میری بیٹی) زون نعیم تھی اور نومولود کا خوش قسمت باپ میں تھا۔ کاش بیٹی کی پیدائش پر تعزیت کرنے والے بزرگ سے ملاقات ہو جائے تاکہ میں انہیں بتا سکوں کہ میری بیٹی نے بیٹوں سے کہیں بڑھ کر ہماری عزت کو چار چاند لگائے ہیں۔ وہ بزرگ ملتے تو میں ان کی خدمت میں مبنی بر حقیقت یہ شعر پیش کرتا

باعثِ افتخار ہوتی ہیں

بیٹیاں تو قرار ہوتی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments