سنا ہے ایک اور صحافی مر گیا !


فصیح الدین دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔ انگریزی ادب کی کلاس میں میری ایک بہت ہی قابل احترام کلاس فیلو خاتون کے بھائی تھے اور بڑے بھائیوں جیسے تھے۔ یہ انیسو ستانوے کی بات ہے وہ بڑے وجیہ، سنجیدہ اور مہذب آدمی تھے۔ ان کی وفات پر جو کچھ لکھا گیا اور جن جن حلقوں سے لکھا گیا وہ اتنا معتبر ہے کہ فصیح کی شخصیت دنیا سے جانے کے بعد زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے۔ لکھنے والوں نے لکھا کہ وہ معاشی پریشانی میں گھرے ہوئے تھے جو قلب و نظر کو متاثر کر رہی تھی۔ یقینا ایسا ہو گا کیونکہ سوائے چند لٹیرے ٹائپ صحافیوں کے باقی سب کے لئے نوکری سے زیادہ عزت اور عزت سے بڑھ کر زندگی بچانے کے لالے پڑے ہیں اور صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں۔ میڈیا ہاؤسز پر برا وقت ہے اور میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والوں پر کڑا۔

میڈیا ہاؤسز منافع نہیں کما پا رہے، اشتہارات نہیں مل رہے، پروڈکشن کی قیمت زیادہ ہے، حکومت تعاون نہیں کر رہی، بزنس ماڈل ٹھیک نہیں، سوشل میڈیا سارا اشتہار لے گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں درست بھی ہیں لیکن مسئلہ دراصل کہیں اور ہے اور وہ ہے لامحدود منافع کمانے کے مواقع۔ مجھے میڈیا میں کام کرتے ہوئے سولہ برس ہو گئے ہیں اور میں نے اس دوران بہت ترقی بھی کہ ہے لیکن ایسا نہیں ہوا کہ میں نے ذاتی جہاز خرید کر جزائر غرب الہند پر چکر لگانے شروع کر دیے ہوں۔

ایک تو یہ ہوا کہ میڈیا نے اینکروں کی صورت میں مصنوعی لارڑز پیدا کیے جنہیں اپنی حیثیت سے زیادہ نوازا گیا اور پھر ان سے ڈرتے بھی رہے بالکل یوں جیسے کنگال عاشق محبوبہ کے کسی اور کے ساتھ بھاگنے سے ڈرتا ہے۔ منافع پر کوئی چیک نہیں رکھا گیا۔ میڈیا ہاؤسز نے پہلے ریوڑیوں کی طرح نوکریاں بانٹیں اور پھر ایسے لوگوں کو نکالا جیسے بیمار مرغیاں ڈربے سے باہر پھینکی جاتی ہیں۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ ملازمین کو کیوں نکال رہے ہیں۔

آپ نے پچھلے بیس برسوں میں کیا کمایا ہے اور کہاں لگایا ہے۔ غلام بھی آ ج کے ملازم سے زیادہ سیکیورٹی رکھتا تھا۔ کسی کو اس کے صحت مند اور زندہ رہنے کی تو فکر ہوتی تھی چاہے اپنے منافع کے لئے ہوتا۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ جہاں صحافی تنخواہیں نہ ملنے سے یا بے روزگار ہونے سے مر رہے ہیں وہاں چند ایسے ہیں جنہیں روپیہ پھینکنے کی جگہ نہیں مل رہی۔ بھئی آپ منافع کمائیں لیکن جن لوگوں نے اس منافع کو حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کی ہے ان کے حقوق کا بھی خیال رکھیں۔

لوگوں کو۔ ملازمتوں سے نکالنے والے سرمایہ دار کی کبھی پرسش نہیں ہوئی۔ صحافتی تنظیمیں بوڑھی رنڈیوں کی طرح پان کی ایک گلوری پر ٹرخا دی جاتی ہیں۔ فصیح الدین کی موت کا سنا، پڑھا، ان کے دوستوں نے بہت اچھا لکھا لیکن مجھے یقین نہیں آتا جس فصیح الدین کومیں جانتا تھا وہ یوں اچانک چلا جائے گا۔ خاموش طبع اور مہذب آدمی تھا۔ بہت خوددار اور حساس تھا۔ ایک نظم جو نظم کم اور احساس کا بیان زیادہ ہے یو ٹیوب پر چڑھا دی ہے تاکہ فصیح الدین کی موت سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکوں۔ سوشل میڈیا پر اب ہر بات ایک خبر اور ہر خبر ایک اشتہار بن سکتا ہے اور اشتہارات جتنے ہوں اتنے پیسے زیادہ ہوں گے۔

نظم

سنا ہے ایک اور صحافی مر گیا

حساس تھا، خوددار تھا، محنتی تھا

لیکن بے روزگار تھا

روز جیتا تھا روز مرتا تھا

بس سمجھیں زندگی کی قید سے چھوٹ گیا

شکر کریں پنکھے سے نہیں جھول گیا

کس بلڈنگ سے نہیں کود گیا

گولیاں نہیں پھانک گیا

ورنہ پی ایس ایل کا سارا مزا خراب ہو جاتا

موت برحق ہے اور

ایک دن سب صحافیوں کو مرجانا ہے

لیکن ایک چیز موت سے بھی زیادہ برحق ہے

اور وہ ہے منافع

آخر انسان دنیا میں کسی سیٹھ کا۔ منافع کمانے ہی تو آیا ہے

منافع کمائیں توکار آ مد اور نہ کمائیں تو بے کار

کیا کہا رزق کا وعدہ خدا نے کیا ہوا ہے؟

یقیناً کیا ہو گا

لیکن اشتہار دینے کا وعدہ نہیں کیا

محنت اور وسائل کی تقسیم کا وعدہ نہیں کیا

بچوں کے تنور بھرنے کا وعدہ نہیں کیا

سکول کی فیس اور بجلی کے بل بھرنے کا وعدہ نہیں کیا۔

ایک صحافی دل کا دورہ پڑنے سے مر گیا

اس پر اتنا واویلا کیوں

تمہیں تو مرنا بھی نہیں آیا فصیح الرحمان

صحافی کی موت تو شیمپئین کے نشے کی طرح ہونی چاہیے

جس کا جادو سر چڑھ کر بولے

پلازے میں لگی آگ کی طرح ہونی چاہیے

دوڑیں لگوا دینے والی

تاکہ صحافتی تنظیمیں سڑکوں پر نکلیں

نعرے بازی کریں

سیٹھ لوگ انہیں ٹھنڈے پیزے کھلائیں

اور پھر ایک عہد نامہ جاری کیا جاسکے

زندگی کی ہزیمت، موت اور منافع

کا کھیل جاری رکھا جا سکے

تمہیں تو مرنا بھی نہیں آیا فصیح الرحمان

تم چپ چاپ ایک اندھیری غار سے دوسری اندھیری غار میں اتر گئے

گندھک کے امن میں پانی کی طرح

ہمالیہ کی دامن میں چشمہ کی مانند

تم یوں خاموشی سے اتر گئے

جیسے نیند کی آغوش میں شیر خوار

جیسے کسی اجنبی زمین پر آزادی

جیسے نے کے دل میں درد

فکر مت کرو تصیح الرحمان

ہم تمہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے

کیونکہ فیس بک ہر سال تمہاری یاد بھیجتا رہے گا اور کوئی مجبور کہے گا

اچھا ہوا فصیح الرحمان جوانی ہی میں مر گیا

ہمیں تو موت بھی نہیں آتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments