کیماڑی کے مظلوموں کا قاتل کون؟


اس سلسلہ میں مزید تحقیق اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی غرض سے میں نے اس فیلڈ کے ایکسپرٹ اور ماہر ماحولیات پریذیڈنٹ ماحولیات کنسلٹنٹس آرگنائزیشن اور ECO۔ (LAB) کے C۔ E۔ O ڈاکٹر عاصم محمود سے خصوصی بات چیت کی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کے بظاہر اس مکمل حادثے میں سب سے بڑی قصوروار وہ کمپنی یعنی Progressive Fumigation Corporationہے جس نے نہ صرف گھٹیا کوالٹی کی گیس استعمال کی بلکہ تو ہی مروجہ طریقہ کار اپنا اور نہ ہی احتیاطی تدابیر اختیا رکی انہوں نے مزید بتایا کہ اس طرح کی Fumigationکے لیے پوری دنیا میں اب بہت جدید طریقے اپنائے جاتے ہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں بھی tab bromine/Phosphineکے ذریعے ہی Fumigationکی جاتی ہے لیکن اس میں سیل بند چیمبر یا کنٹینراستعمال کیا جاتا ہے۔

ساتھ ساتھ GW ماسک بھی استعمال کرنا لازمی ہے۔ کیونکہ یہ گیس کاربن مونو آکسائیڈ اور ہائیڈروسلفیڈ جیسی انتہائی مہک گیسیں پیدا کرتی ہے جو کہ انسانی جانوروں اور جانداروں اور تمام سانس لینے والے جانداروں کے لیے سائینائیڈ گیس سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور اس کے ساتھ اگر برومین گیس سانس میں چلی جائے تو براہ راست سانس کی نالیوں اور پھیپھڑوں پر اثر انداز ہو کر خون میں شامل ہو جاتی ہے اور متاثرہ شخص کی فوری یا چند گھنٹوں میں موت واقع ہو سکتی ہے اسی طرح فاسفین گیس اگر سانس کے ذریعے جسم کے اندر چلی جائے تو فوری طور پر اعصابی نظام کو مفلوج کر دیتی ہے اور انتہائی مضر طریقے سے انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے اسی لیے دیکھا گیا کہ اس کیماڑی حادثے میں بہت سارے لوگ ایک دم سے بے ہوش ہو کر گر پڑے اس گیس کے اخراج کی بنیادی وجہ اس کمپنی کی نا اہلی اور مجرمانہ طریقہ کار اپنانا ہے جس میں Fumigationکے لیے کھلی ہوا میں برومین فوسفین ٹیبلٹ یا میتھائل برومائیٹ (H 2 S 04 (ch 3 br) ہائیڈرو سلفیڈ کا سپرے کیا گیا اور اس کے نتیجے میں 5 کلو میٹر تک کے دائرے میں 24 سے 48 گھنٹوں کے لیے فضا کو ان گیسوں سے زہر آلود کر دیا گیا ہو گا ڈاکٹر عاصم نے مزید بتایا کہ اس عمل کے دوران قانونی طور پر پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے دو یا اس سے زائد عہدہ داران کا وہاں موقع پر انسپیکشن کرنا اور دیکھنا کہ کیا تمام SOP ’sپر عمل کیا گیا ہے اور پھر اس کے بعد اس کی سند جاری کرتا ہے گویا کہ اس سارے عمل میں اس کمپنی کے ساتھ ساتھ پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ بھی برابر کا ذمہ دار ہے اپنے قارئین کو ایک اور بات بتاتا چلوں کہ اس عمل کو کھلے عام کرنا اور اس انداز سے کرنے کا بنیادی مقصد کم سے کم خرچہ کر کے اور کم سے کم وقت میں بغیر جدید آلات کی مدد کے کرنا ہی غیر قانونی ہے اس سارے عمل میں لاکھوں کروڑوں روپے کا گھپلا کیا جاتا ہے جس میں یہ تمام عناصر شامل ہیں چاہے وہ سستی گیس یا ٹیبلٹس ہوں یا بغیر محاصرے کے کیا گیا اتنا پیچیدہ کیمیائی عمل ہے۔

جب میں نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ برومین اور فوسفین گیس دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کے کچھ خطوں میں امریکہ کی طرف سے بطور ہتھیار بھی استعمال کی گئی ہیں جس کا مقصد وہاں کے لوگوں کو اعصابی اور (ذہنی اور جنسی ) طور پر مفلوج کرنے سمیت ہلاکتیں اور ہمیشہ کی معذوریاں بھی شامل ہیں 70 کی دہائی سے اقوام متحدہ نے ان گیسوں کے استعمال اور تجارت پر پابندی لگا دی اور 1975 سے امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ان گیسوں کو فیومیگیشن کے لیے کسی بھی طریقہ کار کے ساتھ کسی بھی انداز میں استعمال کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ بین الاقوامی جرائم کی زد میں آتا ہے 1975 کے 40 سال بعد یعنی 2015 میں UNOکے ماحولیات ماہرین کی بار بار سفارشات کے بعد 2015 میں ان گیسوں کے فیومیگیشن کے لیے پاکستان میں استعمال پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی تو اسی لوٹ مار مافیا نے نہ تو پابندی لگنے دی بلکہ اسی سارے معاملے کو ہی آئندہ 15 سالوں تک یعنی 2030 تک التواء میں ڈال دیا گیاکوئی ہے جو ان سے پوچھے کہ ایک انتہائی خطرناک زہریلی گیس کو انسانی جانوں سے کھیلنے کے لیے ابھی تک کیوں قانونی طور پر استعمال کی اجازت ہے۔

آج صورتحال یہ ہے کہ نہ تو وفاقی حکومت کی طرف سے اور نہ ہی سندھ کی صوبائی حکومت کی طرف سے ابھی تک کسی قسم کی ایف آئی آر کسی کے بھی خلاف درج کی گئی ہے اور ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ میری اطلاعات کے مطابق ابھی تک کسی ہلاک شدگان کا ٹیسٹ کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی پوسٹماٹم رپورٹ منظر عام پر آتی ہے سندھ کے محکمہ پولیس کے سرجن ہوں یا ہسپتال Medico Legal Officer) MLOسب کے بیانات میں تضادات ہیں اور کسی نے بھی پوسٹماٹم کے حوالے سے واضح بیان نہیں دیا جب کہ میری تحقیق کے مطابق اس طرح اموات کی صورت میں نہ صرف مکمل پوسٹ ماٹم کی ضرورت ہے بلکہ برومین اور فاسفین کے اثرات جاننے کے لیے خاص کیمیائی ٹیسٹوں کی ضرورت ہے جس کے ذریعے خون میں برومین کے خلیات کی نشاندہی RBCکے ذریعے ہوتی ہے اور اسی طرح فاسفین کے اثرات جاننے کے لیے دماغ کے خلیات کا جائزہ ضروری ہے بد قسمتی دربد قسمتی تو یہ ہے کہ میری معلومات تک پاکستان میں کوئی بھی لیب اس طرح کے ٹیسٹ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی 72 سال بعد پاکستان جیسے ملک کے لیے کیا اس طرح کی سہولیات نہ ہونا سوالیہ نشان نہیں ہے؟

یہاں میں ذکر کروں گا لودھراں سے PMLNکی ممبر قومی اسمبلی اور ڈاکٹر ثمینہ مطلوب صاحبہ کا جنہوں نے اس معاملے پر قومی اسمبلی میں غور و فکر اور اس کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرنے کا عندیہ دیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ تمام سیاسی اور ذاتی مفادات اور وابستگیوں سے بالا تر ہو کر اس معاملے کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کون سے طاقتور عناصر ہیں جنہوں نے گلوبل انوائر مینٹل لیب کو دوسری رپورٹ جاری کرنے سے روکا ہے اور دوسری جانب ہلاک شدگان کا پوسٹماٹم تک نہیں ہونے دیا گیا اور بیمار ہونے والوں کے بھی منہ بند رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ہم بحیثیت قوم کیا صرف ایک ہجوم ہی رہیں گے اور ہمارے ملک میں حادثات اور اسی طرح کے ارادی جرائم ہوتے رہیں گے میرا تمام ارباب اختیار سے مطالبہ ہے اور گزارش ہے کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داران کو سزادلا کر آئندہ کے لیے اس طرح کے حادثات کی روک تھام کی جائے اور اگر اس سارے واقع کے پیچھے کوئی ملکی غیر ملکی سازش ہے تو ذمہ دار ادارے اس پہلو سے بھی ضرور تحقیق کریں۔ کیونکہ اس ملک کے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار تمام ادارے اور حکومتیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments