میلکم ایکس۔ ایک شدّت پسند باغی یا صاحبِ بصیرت رہنما؟


‘’We believe that the separation is the best way and the only sensible way, not the integration’’, Malcolm X
“Concerning nonviolence, it is criminal to teach a man not to defend himself when he is the constant victim of brutal attacks.”, Malcolm X

سیاہ فام افراد کے حقوق کی تحریک کے دو اہم لیڈر، میلکم ایکس اور ڈاکٹر لوتھر کنگ۔ دونوں کو قتل کیا گیا۔

رفتہ رفتہ میلکم کی مقبولیت اور فکر و عمل کی جارحیت میں اضافہ اُس حد تک پہنچ گیا کہ نیشن آف اسلام کی لیڈرشپ تک میں اُن کے حوالے سے بے چینی نے جنم لینا شروع کردِیا۔ پھِر دو ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے میلکم اور نیشن کی نہ صرف راہیں ہمیشہ کے لیے جُدا کردیں بلکہ میلکم کو خُود نیشن کی طر ف سے جان کا خطرہ لاحق ہونے لگا۔

پہلا واقعہ نومبر 1963 میں جان ایف کینیڈی کے قتل کے فوراً بعد الایجا محمد کی طرف سے منع کرنے کے باوجود میلکم کا اِس حوالے سے بیان دینا تھا جِس میں میلکم کے الفاظ،

This is a case of chickens coming home to roost

نے وہ ہنگامہ برپا کِیا کہ نیشن نے اُن سے لاتعلقی کا اعلان کردِیا۔ دوسرا واقعہ الایجا محمد کی ذاتی زندگی سے متعلق ایسے معاملات کا سامنے آنا تھا، جِس سے میلکم کی نظر میں الایجا محمد کی عظمت کا بُت پاش پاش ہوگیا۔

میلکم ایکس کا سفر حج

ان تمام واقعات سے دلبرداشتہ ہوکر میلکم نے بیرونی ممالک کے دوروں کا آغاز کِیا جِس میں سب سے اہم اپریل 1964 میں حج کی ادائیگی تھی۔ جِس کے بعد انہیں اصل اسلام کی پہچان اور ہر رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر عالمگیریت اور انسان سے محبت کی ضرورت کا اِدراک ہُوا۔ اب دنیا کے سامنے الحاج مالِک الشّباز کی صورت ایک نیا میلکم ایکس تھا۔

میلکم کی زندگی کا یہ چوتھا، مختصر اور آخری دور انتہائی دلچسپ ہے۔ بیرونی دوروں سے واپس آکر میلکم نے نہ صرف ببانگِ دہل الایجا محمد کی مصنوعی عظمت کا پردہ فاش کِیا بلکہ اُن کے بیانات میں سفید فام نفرت کے بجائے تمام انسانوں کے مساوی حقوق کا پیغام واضح نظر آیا۔

“I am not a racist. I am against every form of racism and segregation, every form of discrimination. I believe in human beings, and that all human beings should be respected as such, regardless of their color.”, Malcolm X

میلکم ایکس اپنی بیٹیوں کے ہمراہ

سال 1964 میں میلکم اور نیشن کے درمیان اختلافات میں شدّت بڑھنے لگی۔ اِسی سال میلکم نے سِول رائٹس موومنٹ میں اپنے عملی کِردار اور اپنی فِکری تبدیلی کو واضح کرنے کے لیے مسلم موسک انکارپوریٹڈ اور آرگنائزیشن آف ایفرو امریکن یونیٹی نامی تنظیمیں قائم کیں۔ اِس کے ساتھ ہی افریقی اور یورپی دوروں پر سربراہانِ مملِکت سے ملاقاتیں بھی کیں اور یہ سِلسلہ سال 1965 کے آغاز تک جاری رہا۔

بالآخر 21 فروری 1965 کا دِن آتا ہے، ایڈابان بال رُوم میں گولیاں چلنے کے بعد طوفان ذرا تھمتا ہے تو لوگ ایک زخمی شخص کے گِرد جمع ہوتے ہیں، اپنے سینے میں پیوستہ گولیوں کے درد سے تڑپتا یہ شخص کوئی اور نہیں، خود میلکم ایکس ہے جو کچھ دیر بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہمیشہ کے لیے ابَدی نیند سوجاتا ہے۔

اِس میں دو رائے نہیں کہ نیشن آف اسلام کے زیرِ اثر رہنے اور سیاہ فام شہریوں کے حقوق کی بات کرنے والے رہنماؤں کے روایتی مصلحت پسندانہ طرزِ عمل کے برعکس، جارحانہ اندازِ فکر و عمل کو اپنانے کی وجہ سے میلکم کو امریکی تاریخ میں وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جو مارٹن لُوتھر کِنگ کو حاصل ہُوا۔ لیکن سیاہ فام طبقے میں احساسِ کمتری کی زنجیروں کو توڑنے میں جو کِردار میلکم نے ادا کِیا وہ کوئی اور نہ کرسکا۔ اِسی لیے میلکم ایکس آج بھی ایک فِکر کی صورت زندہ ہیں۔

امریکہ میں میلکم ایکس کے حوالے سے جو سوچ پائی جاتی ہے اُسے ہم بنیادی طور پر تین زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک وہ طبقہ ہے جو میلکم ایکس کو مارٹن لُوتھر کِنگ سے موازنہ اور نیشن سے منسلک دور کے تناظر میں دیکھتے ہوئے مارٹن لُوتھر کِنگ کو ایک ہیرو اور میلکم ایکس کو ایک وِلن تصور کرتا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو سِول رائٹس موومنٹ کے نتائج سے ہَٹ کر، مجموعی طور پر سیاہ فام شہریوں کے فِکری ارتقاء کے حوالے سے میلکم ایکس کے کِردار کو سب سے زیادہ نمایاں سمجھنے ہوئے اُنہیں ایک عظیم انقلابی رہنما گردانتا ہے۔

میلکم ایکس اور محمد علی

جب کہ ایک تیسرا طبقہ ہے جِس کی دانست میں مارٹن لُوتھر کِنگ اور میلکم ایکس کی عظمت مشترِک ہے۔ یعنی مارٹن لُوتھر کِنگ جو کچھ حاصل کرپائے، وہ میلکم ایکس کی بصیرت اور قربانی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ گویا، میلکم ایکس نے نیشن سے علیحدگی کے باوجود جارحانہ طرزِ عمل کو اس لیے اپنائے رکھا کہ امریکی ریاست کو یہ باور کرایا جاسکے کہ اگر وہ مارٹن لُوتھر کِنگ کے پیش کردہ حل کی طرف نہیں جاتی تو دوسری جانب جو موجود ہے، اُس سے نبرد آزما ہونے کی ریاست متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس سوچ کی تائید میلکم ایکس کے فروری 1965 میں سیلما شہر میں ووٹنگ رائٹس کے حوالے سے ہونے والے فسادات کے وقت دورے پر مارٹن لُوتھر کِنگ کی اہلیہ سے ملاقات کے موقع پر کہی گئی اِس بات سے ہوتی ہے۔

’’ I want Dr. King to know that I didn’t come to Selma to make his job difficult. I really did come thinking I could make it easier. If the white people realize what the alternative is, perhaps they will be more willing to hear Dr. King’’,

اِس سے قطع نظر کہ میلکم کے حوالے سے مذکورہ بالا کون سی سوچ حقیقت پر مبنی ہے، یہ ماننا چاہیے کہ بیسویں صدّی جہاں بیشتر انقلابوں، شورِشوں اور مختلف تحریکوں کے حوالے سے غیر معمولی رہی، وہیں اِس صدّی میں سامنے آنے والی اُن شخصیات میں جنہوں نے تاریخ میں اپنے اَن مِٹ نقوش چھوڑ دیے، بِلا شُبہ میلکم ایکس کا شُمار بھی کِیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments