مادری زبانوں سے دُور ہوتے ہم اور مادری زبانوں کا عالمی دن


پچھلے دنوں 21 فروری کو پوری دنیا نے ”مادری زبانوں کا عالمی دن“ منایا۔ پُوری دنیا میں اس وقت لگ بھگ 6 ہزار 500 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں میں سے تقریباً 2000 ایسی زبانیں ہیں، جن کے بولنے والوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہے، یعنی ان 2000 زبانوں میں سے ہر زبان کے بولنے والوں کی تعداد ایک ہزار کے اندر ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ان زبانوں میں سے کئی سو زبانیں ایسی ہیں، جوفقط بولی جاتی ہیں، لکھی نہیں جاتیں۔ جن کا اپنا رسم الخط (اسکرپٹ) یا الفابیٹ نہیں ہے، جن کو ہم ”زبان“ نہیں کہہ سکتے، صرف ”بولی“ کہہ سکتے ہیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ”چینی“ ہے، جس کو دنیا کے لگ بھگ ایک ارب 21 کروڑ، 30 لاکھ لوگ بولتے ہیں۔ دنیا میں دُوسرے نمبر پر بولی جانے والی زبان ”اسپینش“ (اسپینی) ہے، جبکہ آپ اور ہم سب کی پسندیدہ زبان انگریزی، دنیا کی تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ بولی اور استعمال کی جانے والی زبان ہے۔

اس قطار میں عربی۔ چوتھے، ہندی۔ پانچویں، بنگالی۔ چھٹے، پُرتگالی۔ ساتویں، رُوسی (رشیَن) ۔ آٹھویں، جاپانی۔ نویں اور مغربی پنجابی (لہندا) دسویں نمبر پر دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ اردُو، اس وقت دنیا کی زیادہ بولی جانے والی زبانوں کی فہرست میں 20 ویں نمبر پر ہے، جس کو پوری دنیا میں کم و بیش ساڑھے 8 کروڑ لوگوں کی آبادی بولتی ہے۔

”ٹورجینسن“ نامی زبانوں کے بین الاقوامی محققَ، 2012 ء میں اپنی شایع ہونے والی کتاب ”اے شارٹ ہسٹری آف لینگیجز“ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق محققانہ دلائل سے بتاتے ہیں کہ، دنیا میں انسانی ارتقا کے ساتھ اب تک لگ بھگ 2 لاکھ زبانیں ایسی ہیں (ہونگی) ، جو اس کُرّہء ارض پر کسی زمانے میں بولی جاتی رہی ہوں گی، مگر اب ان کا کوئی نام و نشان تک موجُود نہیں ہے۔ زبان کی شماریات کے ماہرین کے مطابق یہ پیشگوئی انتہائی خطرناک ہے، کہ اوسطاً ہر 14 دن میں دنیا کی ایک زبان مر رہی ہے اور اس صدی کے اواخر تک (آئندہ 80 برسوں میں ) تقریباً 7000 زبانیں صفحہء ہستی سے مٹ جائیں گی۔

پاکستان کے نامور لسانی ماہر، ڈاکٹر طارق رحمٰن کی تحقیق کے مطابق اس وقت پاکستان کے مختلف علاقوں میں لگ بھگ 74 مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں سے صرف 30 زبانیں تو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بولی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں میں سے اکثر ”انڈو یورپین زبانوں“ کے خاندان (زبانوں کی اقسام) کی ”انڈو۔ ایرانین“ گرُوپ کی زبانیں ہیں، جبکہ ہمارے یہاں کچھ ”سائنو۔ تبتین“ گرُوپ کی زبانیں بھی ہیں۔

ان میں پاکستان میں بولی جانے والی ایک زبان ”بروشکی“ کو زبانوں کے کسی بھی خاندان (شاخ) سے منسلک نہیں کیا گیا، جس کو لسانیات کے ماہرین نے اپنے انفرادی اوصاف کی وجہ سے ”لینگویج آئیسولیٹ“ (اکیلی زبان) کہا ہے۔ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں میں سندھی، اردُو، سرائکی، میمنی، اوڈکی، کچھی، مارواڑی، ڈھاٹکی، (مشرقی، مغربی اور جنوبی) بلوچی، براھوی، (مرکزی، شمالی اور جنوبی) پشتو، پنجابی، بلتی، شینا، خوار، گجراتی، گوجری، چترالی، باگڑی، ائیر، بدیشی، بتیری، بھایا، چلیسو، دمیلی، دَرّی، دہوارِی، ڈوکامی، گاوڑ۔ باٹی، گھیرا، گووریا، بنگالی، گُرگُلا، ہزاری، جنوبی ہندکو، جدگالی، جنداورا، جوگی، کبُوترا، کلاش، کلامی، کلکتی، کامویری (کام کتاوری) ، کشمیری، کاتی، کھیترانی، کوہستانی (سندھ کے کوہستان والی زبان) ، کولی (کچھی) ، کولی (پَرکاری) ، کولی (ودیارا) ، کُندل شاہی، لاہندا، لاسی، لوڑکی، اورموڑی، پہاڑی (پوٹوہاری) ، پلُولا، سانسی، ساوی، بھیلکی، توروالی، اشوجو، واگھری، واکھی، وینیسی، یدگھا اور دیگر شامل ہیں۔

یہ یاد رہے کہ پاکستان میں بولی جانے والی ان زبانوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی یہ ساڑھی 6 ہزار زبانوں میں سے ہر زبان کسی نہ کسی کی مادری زبان ضرُور ہے۔ اردُو ویسے تو پاکستان کی قومی زبان اور رابطے والی زبان ہے، جس کو پاکستان کے شہریوں کی اکثریت بول سکتی ہے، مگر پاکستان میں اردُو زیادہ افراد کی مادری زبان نہیں ہے، بالکل ایسے جیسے نصف سے زیادہ دنیا انگریزی بول، لکھ، پڑھ اور سمجھ سکتی ہے، مگر ان میں سے بہت کم آبادی ایسی ہے، جس کی مادری زبان انگریزی ہو۔

حکومتِ پاکستان کے جاری شدہ آدمشماری کے اعداد و شمار کے مطابق، ہمارے مُلک میں مادری زبان کی حیثیت سے زیادہ سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے، جس کو پاکستان کے لگ بھگ 44 فیصد لوگ بولتے ہیں، جن کی تعداد 5 کروڑ 84 لاکھ سے زیادہ ہے۔ دوسرے نمبر پر پشتو، پاکستان میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مادری زبان ہے، جو کُل آبادی کے 14 فیصد لوگ بولتے ہیں، جن کی تعداد 2 کروڑ 4 لکھ سے زیادہ ہے۔ سندھی زبان، پاکستان کے 14 فیصد عوام کی مادری زبان ہے اور پاکستان کے اندر کم و بیش ایک کروڑ، 86 لاکھ، 61 ہزار، 571 لوگ سندھی بولتے، لکھتے اور پڑھتے ہیں۔

اس قطار میں سرائکی 10 فیصد (ایک کروڑ، 39 ہزار) عوام کی جانب سے بولی جانے والی چوتھے نمبر پر، اردُو، ساڑھے 7 فیصد (ایک کروڑ، 19 ہزار) آبادی کی جانب سے مادری زبان کے طور پر استعمال ہوتے ہوئے پانچویں، اور بلوچی، ساڑھے 3 فیصد (لگ بھگ 47 لاکھ، 24 ہزار) عوام کی جانب سے بولے جاتے ہوئے، چھٹے نمبر پر پاکستان کی سب سے بڑی زبان ہے۔

اپنی مادری زبان سے جذباتی لگاؤ ہر کسی کی فطرت ہے۔ کیونکہ جو زبان ہمارے شعُور سے بھی پہلے ہماری سماعت سے ٹکراتی ہے، اس کا ہمارے خون میں شامل ہونا فطری ہے، پر اس جذباتی لگن کے علاوھ سائنسی اور معروضی حقائق کے تحت بھی ہر فرد، ابتدائی تعلیم اپنی ماں۔ بولی میں حاصل کرنے سے عقل، سمجھ اور فہم کی منازل نہ صرف جلدی جلدی طے کرتا ہے، بلکہ اس زبان میں سمجھائی ہوئی بات اُسے آسانی سے بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ویسے اپنی مادری زبان سے انسان کا جذباتی لگاؤ اس سے زیادہ اور کیا ہو!

کہ انسان اپنے پروردگار سے جب دعا مانگتا ہے (چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطّے اور کسی بھی مذہب سے ہو! ) تو وہ دعا وہ اپنی زبان میں ہی مانگتا ہے، وہ خواب اپنی زبان میں دیکھتا ہے، گنتی اپنی زبان میں گنتا ہے اور خوشی خواہ غم کا ہر بے ساختہ اظہار (جو اُس سے بے اختیار نکل جاتا ہے! ) وہ اس کی مادری زبان میں ہی ادا ہوتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا اب اس بات پہ زور دیا جا رہا ہے کہ تدریس کا ”میڈیم“ کم از کم ابتدائی کلاسوں تک اپنی مادری زبان ہی ہو، تاکہ بچّہ اپنے مضامین اچھی طرح سمجھ سکے۔

اپنی مادری زبان سے پیار کرنا فطری جذبہ ہے، مگر دُوسری زبانوں کا احترام اور زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کی دلچسپی نہ صرف ہمارے ذہن میں ایک نئی دشا میں ایک نئی کھڑکی کھول کر، اس زبان کے ادب و ثقافت کو سمجھنے کا موقعہ فراہم کرتی ہے، بلکہ وہ زبان بولنے سے آپ اس زبان بولنے والے لوگوں کے دلوں میں جگہ بھی بناتے ہیں۔ زبانوں کو کبھی بھی نفرتوں کی وجہ نہیں بنانا چاہیے، جس طرح کہ دنیا کی مختلف منفی سیاسی قوّتیں، زبانوں کو نفاق کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں اور ہم میں سے بہت سارے کم عقل اس ضمن میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔

اپنی مادری زبان سے متعلق صرف جذباتی بیانات اور نعرے بازی سے اس کا وجُود ممکن نہ ہوگا، بلکہ ہمیں اس سخت مقابلے والے دور میں اپنی زبانوں کو زندہ رکھنے کے جتن کرنے ہوں گے۔ ہمارے شہری خاندانوں کو مُنہ ٹیڑھا کر کے اپنے بچّوں سے دیگر زبانوں میں گفتگُو کرنے کے بجائے، اپنی زبان میں گفتگُو کرنے میں فخر محسُوس کرنا ہوگا، اپنے نوجوانوں کو پہلے تو مطالعے کی طرف راغب کرنا ہوگا اور پھر ان میں اپنی زبان کی کتب کے مطالعے کا ذوق جگانا ہوگا، مقتدرہ قومی زبان اور اکادمی ادبایتِ پاکستان جیسے اداروں کو قومی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر، زور و شور سے جاری زبان کے بگاڑ کی جامع مانیٹرنگ کا نظام وضع کر کے اس کی اصلاح کرنی ہوگی اور میڈیا ہائُوسز کو بھی اپنے ٹیلنٹ کی اصلاحِ زبان کے لیے قابل لوگوں اور زبان کے ماہرین صحافیوں کی خدمات حاصل کرنی ہوں گی، تبھی ہماری پیاری زبانیں بچ سکیں گی، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ”اؤ سی آر“، زبان کی انجنیئرنگ اور آن لائن ٹیکسٹ کی دوڑ کے اس ظالم دور میں ہماری زبانیں بھی وقت کی دُھول میں غائب ہو جائیں اور ہم صرف نعرے ہی لگاتے رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments