افغانستان میں کیا ہونے جارہا ہے


سابق سویت یونین کے افغانستان پر حملے کے چالیس گزشتہ سال دسمبر کو ہوگئے، ان چالیس سالوں میں افغانستان میں تسلسل کے ساتھ انسانیت انسانوں کی وجہ سے مرتی رہی مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے لیکن 22 فروری سے ایک ہفتے کے لئے قتل و غارت کے اس تسلسل میں وقفہ آیا کیا یہ وقفہ دائمی ہوسکتا ہے یہ عالمی برادری پر منحصر ہے۔

یاد رہے طالبان اور امریکہ 18 ماہ کے طویل امن مذاکرات کے بعد امن معاہدے پر متفق ہوگئے اور اس پر باقاعدہ 29 فروری کو دونوں فریقین کی جانب سے دستخط کیا جائے گا اس معاہدہ کی پہلا شرط دونوں جانبین کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان تھا اور اس اعلان پر 22 فروری سے باقاعدہ عمل درآمد شروع ہوگیا اور یہ عمل ایک ہفتے تک جاری رہے گا۔

جنگ بندی کا آغاز ہوتے ہی افغانستان کے عوام باہر نکلی اور خوشیاں منائی اور اس امید کا اظہار کیا کہ جنگ بندی سے افغانستان میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہوجائے گی۔

لیکن کیا امن افغانستان میں موجودہ حالات میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہے؟ یہ سوال اور اس جیسے دیگر سوالات لوگوں کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں ان کی خدشات کی بنیادی وجہ ماضی کے تلخ تجربات ہیں جو اب تک افغان عوام کے ذہنوں پر نقش ہے سویت یونین کے نکلنے کے بعد افغان مجاہدین آپس میں دست و گریبان ہوئے جس کے بعد مکہ مکرمہ میں مجاہدین کے درمیان معاہدہ طے معاہدے کے تحت حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار کو اقتدار سونپ دیا گیا لیکن کابل پہنچتے ہی متعدد گروپوں کے درمیان کابل پر قبضے کی جنگ چھڑ گئی جس میں لاکھوں افغانوں نے اپنی جانیں گنوائیں اس کے بعد طالبان کا ظہور ہوا طالبان نے افغانستان کے 95 فیصد علاقے پر قبضہ کیا اور ان کی حکومت پانچ سال تک جاری ہے اس دوران 9 / 11 واقعہ رنما ہوا جس کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان حکومت کو ختم کردیا گیا۔

طالبان کی حکومت کے اختتام کے بعد جرمنی کے شہر بون میں بین الافغانی مذاکر ات ہوئے ان مذاکرات کے نتیجے میں حامدکرزئی کو افغانستان کا سربراہ مقرر کردیا گیا یاد رہے اس پہلے حامد کرزئی کوئٹہ میں مقیم رہے حامد کرزئی نے پنے دور حکومت میں تین دفعہ صدارتی انتخابات کروائے دو دفعہ افغان عوام نے حامد کرزئی کو صدر منتخب کیا اور تیسرے انتخابات میں اشرف غنی فاتح قرار پائے یاد رہے افغان آئین کے تحت ایک بندہ دو بار ہی صدارت کے منصب پر بیٹھ سکتا ہے۔

افغانستان پر امریکہ اور اس کی اتحادیوں کے حملے کو 18 برس ہورہے ہیں ان 18 سالوں میں افغانیوں نے صرف تین دن سکھ کا سانس لیا ہے وہ بھی تب جب گزشتہ سال طالبان اور اٖفغان حکومت کی درمیان عید کے دن تک جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا اور اب کے بار جنگ بندی کا اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب ملک میں انتخابی نتائج کا علان ہوا ہے جس میں موجودہ صدر اشرف غنی ایک بار پھر صدر منتخب ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف اشرف غنی مخالفین کے جانب سے بھی انتخابات میں کامیابی کی دعوے کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ متوازی حکومت بنانے کا بھی اعلان کیا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی شروع کرچکے ہیں چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ جو صدارتی امیداوار بھی تھے انہوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جن میں جنرل دوستم اور دیگر شامل ہے انہوں نے پنجشیر اور دیگر صوبوں میں گورنرز کی تعینات کردیے اور اس سلسلے کو ملک کے دیگر صوبوں تک پھیلانے کا بھی اعلان کیا ہے

یاد رہے عبداللہ عبداللہ کو سابق صدر حامد کرزئی کی بھی حمایت حاصل ہے۔

افغانستان میں صدارتی انتخابات کی نتائج سے ایک نئے بحران نے جنم لیا ہے جس کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے اس سے ایک بار پھر خانہ جنگی جنم لے سکتی ہے اور دوسری طرف طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کے بارے میں شمالی اتحاد کی طرف سے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس معاہدے کے رو سے طالبان ایک بار پھر اقتدار میں آسکتے ہیں جو انھیں قابل قبول نہیں ہے۔ سابق کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد ضیا مسعودپہلے ہی اعلان کرچکے ہے کہ طالبان کے خلاف اگر وہ اقتدار میں آئے تو وہ مسلح جدوجہد کریں گئے۔

افغان عوام کی ذہنوں میں بھی خوشیوں کے ساتھ یہ خدشات جنم لیے رہے ہیں کہ کہی عالمی طاقتیں افغانستان کو ایک اور خونریز جنگ کی طرف تو نہیں دھکیل رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments