انسانیت، مذہب اور مولوی


انسانیت اور مذہب بظاہر تو دو علیحدہ علیحدہ پہلو ہیں لیکن ان دونوں کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ خاص طور پر مذہب کا تو انسانیت سے سب سے زیادہ گہرا تعلق ہے کیونکہ دنیا بھر کے تمام مذاہب کی بنیاد ہی انسانیت ہے۔ اور پھر ہر مذہب کی تعلیمات اور ہدایات کی شروعات ہی انسانیت سے ہوتی ہے۔ انسانیت مذہب کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اور اگر انسانیت کو مذہب سے الگ کر دیا جائے تو مذہب کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے۔

انسانیت کے ساتھ ساتھ مذہب کا ملاپ رہنا بہت ہی خوش آئند اور مثبت پہلو ہے البتہ انسانیت کے وجود کے قیام کے لیے کسی مذہب کا ہونا لازم نہیں۔ مثال کے طور پر اگر عبدالستار ایدھی مرحوم کی خدمات پر نظر ڈالی جائے تو انہوں نے ہمیشہ انسانیت کے پہلو کو اجاگر کیا اور مخلوق خدا کی بڑھ چڑھ کر مدد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن درحقیقت وہ مذہب اور انسانیت دونوں کی خدمت کررہے تھے۔ کیونکہ مذہب کی تعلیمات کے مطابق دوسروں سے اچھا سلوک رکھنا اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا ایک نیکی اور لازم عمل ہے اس لیے ان کے اعمال کو دونوں نظریوں سے دیکھا اور سراہا جاسکتا ہے۔

مثلا یتیم سے محبت کرنا اور اس کی بہترین کفالت کرنا مذہب کا حکم بھی پے اور ہدایت بھی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ انسانیت کا بھی اہم نکتہ ہے۔ اور ایدھی صاحب سے بڑھ کر پاکستان میں شاید ہی کسی نے اتنے بہترین طریقے سے یہ ذمہ داری نبھائی ہو۔ اس کا قطعاً مطلب نہیں کہ ان کے علاوہ کسی نے ایسا عمل نہیں کیا لیکن ان کا عمل کئی دوسروں سے بہتر اور پر خلوص تھا۔

ویسے تو دنیا کے ہرانسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانیت کی خدمت کرے اور دوسروں کے لیے ہمیشہ آسانیاں پیدا کرے۔ لیکن انسانوں میں اگر پھر بھی درجہ بندی کی جائے اور اندازہ لگایا جائے کہ سب سے زیادہ اس ذمہ داری کو نبھانے کے حقدار کون ہیں تو سب سے پہلا درجہ مذہبی رہنماؤں کا آئے گا۔ ان کا کام اور فرض بنتا ہے کہ مذہبی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانیت کی تعلیمات بھی دیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا خود عملی مظاہرہ بھی کریں۔ تاکہ لوگ ان کے اس عمل کو سراہیں بھی اور ان کو دیکھ دیکھ کر زیادہ سے زیادہ اس بات پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں۔

پاکستان تقریبا بائیس کروڑ آبادی کا ملک ہے اور اس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اور اس کے علاوہ کچھ اقلیتیں بھی موجود ہیں۔ فرقہ بندی میں تقسیم مسلمان لاکھوں مذہبی رہنماؤں کی باتوں کو مانتے اور عمل کرتے ہیں۔ ان مذہبی رہنماؤں کو مختلف القاب سے جانا جاتا ہے جیسا کہ علامہ، پیر، مولوی، مولانا، زاکر سمیت کئی دیگر القاب ہیں۔

مذہبی تعلیم کو اگر پڑھا جائے تو مذہب اسلام سب سے بنیادی تعلیم و ہدایت حقوق العباد کو پورا کرنے کی تلقین کرتا ہے یعنی کہ انسانیت۔ مثال کے طور پر لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھنا اور محبت اور خلوص سے پیش آنا۔ یعنی کہ مذہب کی روح سے دیکھا جائے تو ویسے ہر مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انسانیت کی خدمت کرے اور حقوق العباد کا خیال رکھے لیکن مذہبی علماء کی ذمہ داری سب سے زیادہ بنتی ہے وہ اس کی تعلیم بھی دیں اور عملی مظاہرہ بھی کریں۔ کیونکہ یہ لوگ مذہب کی تعلیمات کو دور حاضر میں عملی جامہ پہنانے کے ذمہ داران بھی ہیں۔ ان کا حق بنتا ہے معاشرے میں ہونے والی ہر نا انصافی اور ظلم کے خلاف یکجہا ہو کر آواز اٹھائیں اور اس کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ انسانیت کے سب بنیادی حصول، یعنی آپس میں پیار محبت اور بھائی چارہ کو فروغ دیں۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ ان کا تو آپس میں ہی پیار اور اخلاص نہیں ہے یہ لوگوں کو کیا تعلیم دیں گئے۔ یہ تواپنے نظریات اور اختلافات کی جنگ میں الجھے پڑیں ہیں یہ اپنے پیروکاروں کو کیسے بھائی چارہ اور محبت کی اگاہی دیں گئے۔ ایک دوسرے کو کافر کافر کہنے کے کھیل میں اتنے مگن ہیں کہ یہ بھول گئے ہیں کہ ان کی اصل ذمہ داری انسانیت کی خدمت اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ دین اسلام جو کہ دشمن کو بھی گالی دینے سے منع کرتا ہے ان میں کئی مولویوں کی تو بات ہی گالی سے شروع ہوتی ہے۔

جس کی بہترین مثال خادم رضوی اور ان جیسے چند مولوی ہیں۔ جو مذہب راستے سے پتھر تک کو ہٹانے کی تلقین کرتا ہے تاکہ کسی کو تکلیف نا ہو یہ لوگ تو وہ پورے کے پورے راستے بند کر دیتے ہیں۔ بچے سکول نہیں جاپاتے، مریض ہسپتال نہیں پہنچ پاتے، ملازم کام پر نہیں پہنچ پاتے، کاروباری لوگ اپنا کاروبار نہیں کر پاتے وغیر وغیرہ۔ اور پھر ان اعمال کو انسانیت اور مذہب کی خدمت کہتے ان کو ذرا شرم نہیں آتی۔ علم اور دلیل کو تو یہ لوگ اتنا برا سمجھتے ہیں جیسے وہ ان کے دشمن ہوں۔

سیاست اور سیاسی رہنماؤں پر ان سے جتنی مرضی بحث کروا لو، اختلافات کی جنگ میں ان سے نفرت کی تعلیمات و تقاریر جتنی مرضی کروا لو لیکن پیار و محبت کی بات تو جیسے ان کی دکانداری بند کردے گی۔ جن معاملات میں میں ان کی رہنمائی اور قابلیت کی ضرورت ہے وہاں ان کی زبان کو تالے لگ جاتے ہیں مثال کے طور پر معاشرے میں بڑھتے بچوں سے زیادتی کے واقعات ہوں یا بڑھتی ہوئی آپسی نفرت۔ ان معاملات پر تو چپ سادھ لیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان جیسے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے لیڈر سے سیاسی باتیں تو ہزاروں کروا لو لیکن ایک بھی عملی قدم ایسا نہیں جس کو سراہا جاسکے۔

اگر 1947 سے ابھی تک تمام ان مولویوں پر نظر ڈالیں تو ایک بھی ایسا نہیں جس نے عبدالستار ایدھی جیسی مثال قائم کی ہو۔ علم کے حصول سے شعور بیدار ہوتا ہے اور شعور کا سب بڑا دشمن تکبر ہے جو کہ ان لوگوں میں سب سے زیادہ پایا جاتا پے۔ جہاں ان کی اصل ذمہ داری ہے کہ معاشرے کی تعلیم وتربیت کریں، برائی سے اجتناب اور اچھائی کو پھیلانے کی تعلیم دیں، دوسروں سے محبت اور انس کی تلقین کریں، فرقہ واریت کو ختم کرنے اور امن کی شمع کو جلائیں، ظالم کے سامنے سیسہ پیلائی دیوار بن کے کھڑے ہوجائیں اور جبر و ظلم ختم کریں، جھوٹے کو جھوٹا کہیں چاہے وہ کوئی بھی انسان کیوں نہ ہو چاہے امیر یا غریب، طاقتور یا کمزور، حکمران یا عوام۔

کوئی کسی سے زیادتی کرے تو اس کے خلاف یک زباں ہوکر کھڑے ہوجائیں اور مظلوم کا ساتھ دیں۔ لیکن یہ تو سب ہوائی باتیں ہیں، حقیقت میں تو سب اپنی اپنی دکانداری کا خیال کرتے ہیں اور اپنا منجن بیچنے کی خاطر کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک اور ان کے لوگوں کو ان سے ہزاروں گالیاں دلوا لو لیکن اپنے ملک میں ظلم کے خلاف بات کرتے ہوئے ان کی زبانوں کو لقواء ہوجاتا ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشعال کا بے گناہ قتل ہو یا سندھ میں فاقوں سے مرتے غریب لوگ، بچوں سے بڑھتے زیادتی کے واقعات ہوں یا بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر قبضہ ہو یا معاشرے میں بڑھتی بدامنی۔ ان سمیت ہزاروں ایسے معاملات جوکہ ان کی ذمہ داری ہیں وہ ان مولویوں کی نظروں سے اوجھل ہیں اور بس ان کو نظر آتا ہے تو صرف سیاست، نفرت، پیسہ اور طاقت۔

یہ اب ہماری بطور قوم ذمہ داری ہے کہ ان مطلب پرستوں سے بچیں اور ان کے ہاتھوں بیوقوف بننے سے گریز کریں تاکہ ان کی دکانداری بند ہو۔ کیونکہ جو انسانیت کی تعلیم نہیں دے سکتا وہ کبھی بھی مذہب کا اچھا عالم نہیں ہوسکتا۔ اپنے معاشرے میں ان ”رانگ نمبرز“ کو پہچانیں اور ان کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ معاشرہ مضبوط ہوسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments