کاہل نگر کے نکھٹو میاں کی کہانی


”بیوی تنگدستی میں گزر بسر کررہی تھی شوہر انتہائی ایماندار، کھرا ادمی تھا لیکن ایک نمبر کا کاہل، نکما نکھٹو۔

کھرے پن پر اس کا نکما پن محلے والوں نے کبھی مدنظر نہیں رکھا الٹا تعریفوں کے پل باندھتے کہ بھلا اس سا ایماندار آدمی اس زمانے میں کہاں ملے گا۔ اسی ایمانداری کی بنیاد پر کوئی مسئلہ درپیش آتا، اس نکمے شخص کو بیچ میں ثالثی تو کہیں گواہ بنا لیا جاتا توجیھ یہ پیش کی جاتی یہ کہیں آتا جاتا نہیں، محلے والے جب کام دھندوں میں مشغول ہوتے ہیں یہ فارغ رہتا ہے لہذا معاملات میں رکاوٹ نہیں ہوگی۔

اس کی کاہلی اس کی خوبی بن چکی تھی۔

بیوی جس دن حالات کی تنگی کا رونا روتی، اس کے نکھٹو پن کا احساس دلاتی، یہ شخص بیوی کو ناشکرا جتلا کر احتجاجا کھانا پینا گھر سے موقوف کرتا۔ مسجد میں ڈیرا جماتا اور وہاں آئی ہوئی نذر و نیاز میں شریک ہوجاتا۔ جس نذر و نیاز کو مسجد میں شراکت داری اصول کے تحت خیر و برکت کا ذریعہ سمجھا جاتا یہ اسے خدا کا اپنی طرف بندھا ہوا رزق جانتا خوشی خوشی اڑاتا بعد ازاں یہ نکماپن اس کے لئے گھر پہ بھرم بازی و نیکی کا اضافی اعزاز بن کر ٹوٹتا جو اس کے بال بچوں پر مزید گراں گزرتا۔ پیش امام کی دینی کتاب پڑھنے کی تلقین، نماز کی پابندی کا مسلسل اصرار اس کاہل کو ہرگز نہ بھاتا۔ وہ نکھٹو دل میں بہتان کا ایک بھنور پالے مسجد سے ٹنڈیرا اٹھائے واپس گھر کی راہ لیتا۔ ”۔

یہ کہانی اسی سلسلے کی کڑی ہے جو میں معاشرے کے حوالے سے مختلف موضوعات میں لکھتی رہی ہوں وہ حقیقت تھیں لیکن یہ ایک کہانی ہے۔

انسان بشر ہے۔ اس سے غلطی سرزد ہوسکتی ہے۔ کیا یہ انسان، بشر محض غلطیاں کرنے کے علاوہ کچھ نہیں؟

بشر تو ساری دنیا میں رہتے ہیں وہاں کیا صورتحال ہے۔ کیا وہ بھی اپنی غلطی کا سارا ملبہ بشر ہونے پر پھینکتے رہتے ہیں۔

فلسفے کے سوالات ( جن سے انسان ادراک کی منازل طے کرتا ہے باخبر ہوتا ہے غلطی سے پہلے سیکھ جانے کے عمل سے گزرتا ہے اور ذاتی تربیت کرکے معاشرے میں فعال کردار ادا کرتا ہے، سوچ کے پیرائے کھولتا ہے) کا اطلاق کسی بھی دور میں خاص طور سے موجودہ دور میں غلط یا ناکافی یا غیر ضروری اصلاحات، معاشی پالیسیوں کی ناکامی، معاشرے کے تحفظات پر عدم توجہی، انصاف و عدل لاقانونیت پر ہرگز ہرگز نہیں ہوتا۔ یہاں غلطیوں کے معنی ملک و قوم سمیت قومی سرمایہ سب کا ضیاع ہے۔ یہیں بس نہیں ہوتا ہر نااہل، ناکافی، نامکمل عمل کو طرہ امتیاز بھی حاصل ہے تعریفوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ ایک ناکافی پالیسی سامنے آتی ہے۔ کبھی بننے سے پہلے دم توڑ جاتی ہے پر ان پر کھڑی تعریف بھرم بازیاں بن کر عوام کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

بشر اپنی نا اہلی ناکافی معلومات کو کسی طور غلطی نہیں بناتا، ایسا کر کے وہ انتہائی سنگین غلطی کا مرتکب ہوتا ہے جہاں اب وہ خود کو دھوکا دیتا ہے۔ یہی دھوکہ دینے کا عمل خلافت کو کب کا ملوکیت بنا گیا پر یہ دھوکہ نہیں چھوڑا۔ نہ غلطی جو دانستہ، نا دانستہ کہیں ہوئی اس سے سیکھا۔

اس کہانی میں بھی معاشرے کی وہ جھلک ہے جو کاہلی و نکمے پن پر کھڑی ہے۔ اب یہ کہانی نہیں رہی ہمارے ملکی معاملات کی جھلک ہے۔ یہاں اس ایک نکمے شخص کے گھر کی گزر بسر کتنی، اورکیسی ہوتی ہوگی اس کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہمارا ملک کیسے چل رہا ہوگا اس کا اندازہ اب ہوسکتا ہے۔

نکما پن ایک گھر کی حالت نہیں بدل سکتا ملک کیا بدلے گا!

بلکہ وہاں زبوں حالی، بھوک و افلاس (جو ظاہری شکلیں ہیں ) اور نہ معلوم کیا کیا لے آئے گا۔

ہمارے ملک میں تبدیلی لانے کے عمل سے پہلے اور بعد میں نکمے پن نے بشر میں خون پینے والی مخلوق کی طرح دانت گاڑھ لئے تھے اور اب تو یہ بشر خود دوسرے بشر پر دانت گاڑھ رہا ہے۔

کھرے پن، سچ کی اہمیت کاہل کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس کا سچ اس کے گھر کی زبوں حالی ہے جو طرہ امتیاز نہیں۔ کہانی کے محلے والوں کی طرح، بیرون ملک آباد پاکستانی محض تعریفوں کے پل باندھنے میں مصروف ہیں۔ کوئی پوچھ گچھ نہیں۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ کا نام امی بھی ہے تو کیا حضور اس تعلیم سے محروم رہے جو انھوں نے عالم میں بانٹی! ان کی یہی تعلیمات تو ان کا اخلاق و کردار بنیں۔ وہ ان تعلیمات سے خود فیضیاب ہوئے۔ پھر بھی خود کو بشر کہا اور سمجھا، کسی قسم کی غلطی کے احتمال سے پہلے تعلیم سے ادراک پایا اور لوگوں کو آگاہ کیا۔ اللہ تعالی کو انسان کی بھلائی مقصود ہے اس نے انسان کو اگاہ کرایا۔

(بحوالہ)

۔ ”قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی انما الٰھکم الہ واحد۔ “ (الکہف: 110 )

ترجمہ:۔ ”آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم ہی جیسا بشر ہوں، میرے پاس بس یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ “

جعلی مفتیان کو جان چکے ہیں تو اصل مفتیان کو بھی پڑھیں جو دینیات پر لکھتے رہے۔ اس سے اصل مفتیان اور ان کا لکھا غلط ثابت نہیں ہوتا (کہ نا پڑھا جائے۔ ) آپ کا نکما پن جھلکتا ہے جو اپ کی غلطی ہے۔ فلسفہ بھی نکمے پیدا نہیں کرتا۔ غلطی سے پہلے غلطی کا احتمال کرنے میں شخصیت کی مضبوطی اور تدارک ہے۔ کبھی یوں سوچا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments