مائنس عمران خواب پر قدغن نہیں!


سیاسی قیادت کے خواب دیکھنے پر کوئی قدغن نہیں، کچھ خواب نہاں اور کچھ خوابِ پریشاں ہوتے ہیں، عمران خان کو مائنس کرنے کے خواہاں خواب پریشاں کی تصویر مجسم ہیں۔ عمران خان کو معروضی حالات میں مائنس کرنے کی خواہش، ہزاروں خواہشوں جن میں سے ہر خواہش پر دم نکلتا ہے جیسی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری حقیقی سیاستدان بننے کی راہ پر گامزن ہوکر واقعی سیاسی رہنما بننے کی کوشش میں ایسی بات کہنے لگے ہیں کہ خامہ انگشت بہ دنداں والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، اپنے تازہ بیان میں انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، جہاں میاں نواز شریف کو رگڑا کہ نواز شریف بھی سلیکٹڈ تھے، وہاں حکومت کے بارے میں بھی کہاکہ ٹھیکہ پورا ہوچکا، حکومت 6 ماہ میں چلی جائے گی، تحریک انصاف کی طرح ( ن ) لیگ بھی پارلیمنٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی، پارلیمنٹ کو اہمیت دینے کے بلاول کے بیان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا، تاہم بلاول کے بارے میں شیخ رشید کا مشورہ کہ وہ اپنا صدقہ اُتاریں، اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ شیخ رشید اندر کی باتیں بخوبی جان کر ہی تبصرے اورمشوروں کے ساتھ دھمکیاں دیتے ہیں، جیساکہ انہوں نے مریم نواز کے باہر جانے کے حوالے سے تازہ بیان داغا ہے کہ ان کے ملک سے باہر جانے میں کابینہ رکاوٹ ہے۔ شخ رشید سے لاکھ اختلاف رائے کے باوجود باوجود ماننا پڑے گا کہ عمران خان کی ایک جیب میں مسلم لیگ (ن ) اور دوسری میں پیپلز پارٹی ہے، حکومت کو اپوزیش سے نہیں بڑھتی مہنگائی سے خطرہ ہے، اگر مہنگائی پر قابو پا لیا گیا تو اپوزیشن کے حکومت گرانے اور گھر بھیجنے کے تمام دعوئے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔

اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن) قیادت کی جانب سے سلیکٹڈ حکومت کی باتیں خود کو بچانے کے بیانئے کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ جب بھی نیب کسی قیادت کو نوٹس بھیجتے ہیں، سیاسی انتقام اور جمہوریت بچاؤ کا شور اُٹھنے لگتا ہے، دراصل خطرہ جمہوریت کو نہیں، کرپٹ سیاسی قیادت کو ہے جو بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر حکومت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانے لگتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا عمران خان کے ساتھ میاں نواز شریف کو بھی سلیکٹڈ کہنا مسلم لیگ ( ن) والوں کو برا لگا ہے، لیکن یہ بات سچ ہے کہ 1985 ء میں میاں نواز شریف کو بے نظیر کے مقابلے میں لایا گیا تھا۔

اس وقت میاں نواز شریف کوئی لیڈر نہیں محض سلیکٹڈتھے۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ سلیکٹڈموقع ملتے ہی لیڈر بن کر عوام کے ساتھ کھڑا ہو گیا، لیکن عوام کے ساتھ کھڑے ہونے والے رہنما ؤں کی اشرافیہ جان کی دشمن ہو جایا کرتی ہے۔ میاں نواز شریف تو عوامی لیڈر بن کرزیر عتاب ہیں، لیکن بلاول اپنے آبا جان کے حوالے سے کیا کہیں گے جو دو سال پہلے تک سنجرانی ماڈل کے چیف شمولیت کار بن گئے تھے۔ بلاول بھٹو مقتدر قوتوں کے ساتھ شراکت داری سے انکاری ہیں، مگر وہ بھول رہے ہیں کہ سندھ حکومت بھی سنجرانی ماڈل کے زیر اثر شراکت داری کا نتیجہ ہے۔

یہ امر واضح ہے کہ ہر دور اقتدار کسی نہ کسی صورت میں مقتدر قوتوں کا مرہون منت رہا ہے، اس کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن) عوام کے سامنے ماننے کو تیار نہیں، لیکن پس پردہ خوشنودی کی جستجو میں مارے پھرتے ہیں، ایک بھائی سلیکٹڈ کلچر کے خلاف لڑ تاہے، جبکہ دوسرا مستقبل کا سلیکٹڈ ہونے کے لیے مچل رہا ہے، میاں شہباز شریف کسی نئے سنجرانی ماڈل کی امید میں بڑے بھائی کو مائنس کرنے کے لیے ٹوپی سے بوٹ تک کا زور لگا رہے ہیں، جبکہ عمران خان ایک پیج پر ہونے کی خوش فہمی کے ساتھ اگلے پانچ سال اقتدار میں رہنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔

حصول اقتدار کے لیے اپوزیشن جماعتوں میں اس قدر بے چینی پائی جاتی ہے کہ ایک بار پھر سہ فریقی اتحاد کا ڈول ڈالتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ہم حکومت کو جمہوری طریقے سے گرائیں گے۔ ہمارے سیاسی شہزادے، حکومت کو سلیکٹڈ کہتے ہیں، لیکن اس حقیقت پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے کہ ملک میں جو الیکٹڈ حکومتیں برسر اقتدار آتی ر ہیں، ان کے بارے میں بھی سیاسی شرفا دھاندلی کے الزامات سے آسمان سرپر اٹھاتے رہے ہیں، اب دیکھنا ہے کہ سلیکٹڈ اور دھاندلی کی پیداوار حکومتوں میں کون سی حکومتیں زیادہ جمہوری ہوتی ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری بار بار حکومت خلاف تحریک چلانے کا عندیہ دیتے ہیں، مگر ماضی باپ بیٹے کی مفاہمتی سیاست کی گواہی دیتا ہے، بلاول اپنے خواب کی تکمیل کے لیے مولا نا فضل الرحمن کا دامن تھام سکتے ہیں، لیکن شاید پھر بھی حکومت گرانے کا خواب شر مندہ تعبیر نہیں ہو سکتا، کیو نکہ مولا نا توسب کچھ صرف لہوگرم کرنے کے لیے کررہے ہیں۔

تحریک انصاف حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے ابھی صرف ڈیڑھ سال ہو رہا ہے، از روئے جمہوریت عمران خان کو مذید ساڑھے تین سال حکومت میں رہنے کا حق حاصل ہے، لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ شور مچا رہی ہے کہ عمران خان فوری حکومت سے دست بردار ہو جائیں، اس مطالبے کو جمہوریت کی کون سی قسم کہا جائے گا۔ اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں ایک طویل عرصہ رہنے کے بعد اقتدار کے بغیر رہ ہی نہیں سکتیں، انہیں اپنے بجائے کسی دوسرے کی باری قابل قبول نہیں ہے۔

اس لیے عمران خان پر سلیکٹڈ وزیر اعظم کا الزام لگایا جا رہا ہے، وہ 22 سال تک اپوزیشن میں رہ کر اقتدار کا انتظار کرتے رہے ہیں، جب کہ اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی حکومت گرانے کی سازشیں شروع کردی گئی ہیں۔ اپوزیشن کئی جانب سے حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہی ہے، ہماری آج کی اپوزیشن کل جب اقتدار میں تھی تو اس نے کمال ہوشیاری کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں اپنے حمایتی پیدا کرلیے تھے، آج پاکستان کے غریب عوام جس مہنگائی کے شکار ہیں، وہ ا نہی حمایتیوں کی مہربانی ہے جو دس سالہ اشرافیائی حکومت کی پیداوار ہیں۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن ) کو حکومت گرانے کے خواب سے نکل کر احتسابی عمل کی حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا، خود کو بچاؤ تحریک زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہونے والی، اپوزیشن تین جماعتی اتحاد بنالے یا تیرہ جماعتی اتحاد، اُسے صرف مولانا فضل الرحمن کے حامیوں کی حمایت حاصل رہے گی، عوامی حمایت سے اپوزیشن ہمیشہ محروم ہی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments