غریب غریب تر اور امیر، امیر تر کیوں ہو رہا ہے؟


اس دور میں ساری دنیا معاشی عدم برابری کی لپیٹ میں ہے۔ نچلے طبقے کی محنت کا استحصال اور وسائل کی لوٹ مار کی وجہ سے کئی ممالک میں بھوک اور بدحالی کی واضح تصویر نظر آ رہی ہے۔ دنیا کی آبادی کا اکثریتی حصہ غربت کی لکیر کے نیچے والی زندگی بسر کر رہا ہے۔ غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے حال ہی میں غیر ملکی ادارے آکسفیم نے ”ٹائم ٹو کیئر“ کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ ایک عشرے میں ساری دنیا کے اندر ارب پتی لوگوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ وہ ارب پتی دنیا کی 60 فیصد آبادی کی مجموعی دولت سے زیادہ ملکیت رکھتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ساری دنیا میں اقتصادی عدم برابری میں اضافہ ہوا ہے، غریب عورتوں اور لڑکیوں کی حالت زار سب سے زیادہ ابتر ہے۔ خواتین ہر روز 12.5 بلین گھنٹے اجرت کے بغیر کام کرتی ہیں۔ اس طرح ایک سال میں عورتوں کی اجرت کم از کم 10.8 ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا کے اندر 42 فیصد عورتوں کو ملازمت نہیں ملتی، کیونکہ وہ دیکھ بھال کے کام میں مصروف ہوتی ہیں۔ جبکہ مردوں میں وہ تعداد صرف 6 فیصد ہے۔

دن بہ دن غربت میں ہوش ربا اضافہ، بڑھتی ہوئی بھوک و بدحالی کے ذمہ داروں میں ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی پیچھے نہیں۔ کارپوریشنز اور ایسی کمپنیوں کا اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ نیو لبرل اکانومی کے بینر تلے بڑی آسانی سے مختلف ممالک کے معاملات میں مداخلت بھی کر جاتی ہیں۔ بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے بھی کرواتی ہیں، ملکی اقتصادی پالیسی بھی ڈکٹیشن دے کر بناتی ہیں، مہنگائی کا طوفان بھی برپا کرواتی ہیں۔

جیسے ہماری ملک پاکستان میں بیل آؤٹ پیکج کی آڑ میں اقتصادی پالیسیاں مرتب کی گئیں۔ یہ کارپوریشنز دولت کی ہوس میں اتنی اندھی ہوگئی ہیں کہ ہائبرڈ بیج تیار کرکے ساری دنیا کی خوراک کو اپنے ضابطے میں رکھ دیا ہے۔ کئی ممالک میں بھوک کی باعث بڑی تعداد میں لوگ مر رہے ہیں، مگر کچھ سرمایہ دار ممالک انہیں خوراک فراہم کرنے کے بجائے خورد و نوش والی چیزیں اس وجہ سے سمندر میں پھینک دی جاتی ہیں کہ ان کی قیمتوں میں کمی کبھی بھی نہ آئے۔

اس نفسیات کے باری میں مجھے چارٹسٹ تحریک کے رہنما اوبرائن کی بات یاد آ رہی ہے جس نے لکھا تھا کہ ”انسانی ترقی کی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے امیر طبقے کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ غریب کو بڑھنے نہ دیا جائے کیونکہ نچلے طبقے کی غربت سے ہی امیر طبقے کی عمارت بنتی ہے۔ امیر طبقہ غریب طبقے کو ہمیشہ کے لیے غریب رکھنا چاہتا ہے۔ اوروں کی محنت سے فائدہ اٹھانے والی انسانی خواہش انسانیت کا بنیادی گناہ ہے۔ سارے گناہ اس واحد گناہ سے جنم لیتے ہیں۔ یہ وہ گناہ ہے جس نے دنیا میں تضاد اور فساد کو پھیلاؤ دیا ہے اور انسان کی تاریخ کو ظلم و ستم کی ایک داستان بنا ڈالا ہے۔ “

ایسا کیوں ہے؟ اس کا بڑا سبب استحصالی نظام ہے جس کے ذریعے دنیا کی ملکیت پر قبضہ اور وسائل کی لوٹ مار کی جاتی ہے۔ جب تک دنیا کی ملکیت اوپر سے نچلی سطح تک نہیں آتی تب تک اس دنیا میں امن، شانتی اور خوشحالی آ سکتی ہے نہ غربت، مفلسی ختم ہو سکے گی۔ اب دنیا کو ایسے نظام کی اشد ضرورت ہے جس کے تحت دنیا میں امن ہو، کوئی بھی بھوکا نہ سوتا ہو، ساری دنیا کی ملکیت چند لوگوں کے بجائے اکثریت کی ملکیت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments