جمہوریت اور احتجاج


اسلامی جمہوریہ پاکستان مطلب کہ ایک ایسی ریاست جہاں اسلامی و جمہوری نظام چلے گا۔ جمہوریت کیا ہے اس نظام میں شہریوں کے بنیادی حقوق کیا فراہم کیے جانے چاہیے اور دوسری طرف بحثیت مسلمان شریعہ اسلامی کا ضابطہ کیا ہے مندرجہ بالا یہ وہ تمام باتیں ہیں جن کے متعلق ہر ایک ذی علم شخصیت کو بخوبی آگاہی و علم حاصل ہے مگر میں یہاں صرف ایک ہی بات جوکہ جمہوریت میں پرامن احتجاج کا حق کو موضوع بحث لاکر گڈ گورننس کے نعروں کی حامل موجودہ صوبائی حکومت بلوچستان اور تبدیلی کا شور مچانے والی وفاقی حکومت کے سامنے چند سوالات رکھوں گا۔

جمہوریت کے علمبردار جو کبھی جمہوریت کے استحکام کی بات کرتے ہیں تو کبھی اس کو پٹری سے ڈی ریل ہونے سے بچانے کی بات کرتے ہیں ان سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا شہریوں کو یہ آزادی حاصل نہیں کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی و نا انصافی کے خلاف اپنے حقوق کی جنگ کے خاطر پرامن احتجاج کرے؟

آزادی اظہار رائے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ، عدلیہ کی بالا دستی اور تمام اداروں کے اپنے اختیارات میں رہ کر آزادی سے کام کرنا جمہوریت کے اہم خصائص میں شامل ہیں۔ اگر کسی شہری کے ساتھ کوئی زیادتی یا نا انصافی ہورہی ہو تو اس کے خلاف پر امن طریقے سے احتجاج کرنا شہریوں کا جمہوری حق ہے مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے ایک طرف تو حکومتیں شہریوں کو بنیادی حقوق دینے سے قاصر ہیں تو دوسری جانب انتظامیہ کے زور پر احتجاج کرنے والوں کو کہی منتشر کرنے کے بہانے سڑکوں پر لاٹھی چارج کرکے گھسیٹا جاتا تو کہیں احتجاج پر دفعہ 144 کا استعمال کرکے لاچار شہریوں کو گرفتار کیا جاتا ہے یہاں سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام تر امور جمہوریت کی ساخت کو نہہں للکار رہے؟

پاکستان میں ان تمام تر مصائب کا سامنا ہر ایک احتجاج کرنے والوں کو کرنا پڑا ہے اسی طرح کی روایت جوکہ گڈ گورننس اور تبدیلی کے حامل حکومت کے دور اقتدار میں بلوچستان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے ملازمین اور طلباء و طالبات کے ساتھ بھی رقم کی گئی جس نے نا صرف جمہوریت کی ساخت کو للکارا ہے بلکہ بلوچ روایات و ثقافت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ گڈ گورننس اور تبدیلی کی بھی نشاندہی کی ہے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی ہے مگر اس پسماندگی کے باوجود تعلیمی مارشل لاء کا نفاذ کرنا اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت بلوچستان کے طلباء و طالبات کو حصول علم سے محروم کیا جارہا ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان کو ایک میڈیکل کالج پر گزارا کروایا گیا۔ وہ بھی ہمیشہ سے مسائل سے دوچار رہا، کبھی انٹری ٹیسٹس کی بے ضابطگیوں پر طلباء وطالبات سراپا احتجاج ہوئے تو کبھی طلباء کو دیگر سہولیات سے محروم کیا جاتا رہا۔ رفتہ رفتہ۔ بعد ازاں اس اکلوتے میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا فقط درجہ دیا گیا اور اس کو ایک ایسے وائس چانسلر کے حوالے کیا گیا جس نے نا صرف اسٹوڈنٹس کے دیگر فنڈز کو معطل کیا مثلا پکنک وغیرہ بلکہ مزید ان پر بھاری فیسوں کا بوجھ ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان کے ماہانہ وظیفہ میں بھی کمی کردی۔ اس وائس چانسلر کی ڈکٹیٹرشپ نے طلباء و طالبات سمیت ملازمین کی بھی کمر توڑ دی اور اس یونیورسٹی کو نجکاری کی طرف دھکیل دینے کی کوشش کی۔

وائس چانسلر کی ان ناقص پالیسیوں و نا انصافی کے خلاف طلباء گزشتہ کئی عرصے سے آواز بلند کرتے رہے اور حتی کہ اراکین بلوچستان اسمبلی کی اکثریت نے بھی طلباء کے مطالبے کی حمایت کی کہ اس وائس چانسلر کا فوری یونیورسٹی سے تبادلہ کیا جائے مگر حکومتی بینچز پر بیٹھے چند اراکین اسمبلی کی وجہ سے اس پر عمل نا گیا۔ ان تمام حالات و نا انصافیوں کو دیکھ کر جب طلباء و طالبات اور ملازمین نے اپنے حقوق کی جنگ کی خاطر صوبائی اسمبلی بلوچستان کا رخ کیا تو ان پر لاٹھی چارج کرکے، طالبات کو سڑکوں سے بھگاکر اور کئی طلباء و طالبات اور ملازمین کو قید کیا گیا۔

میں پوچھنا چاہتا ہوں ان بلوچ سرداروں، نوابوں سے کہ کہاں گئی ہماری بلوچیت و ثقافت و روایات جب ہماری بچیوں کو بے گناہ قید کیا گیا اور گڈ گورننس حکومت سے کہنا چاہتا ہوں کہ اول تو طلباء کے مسائل کو حل کرے اگر نہیں کر سکتی تو طلباء سے احتجاج کا جمہوری حق چھین کر ان کی آواز حق کو ڈنڈے کی زور پر دبانے کی کوشش نا کریں کیونکہ یہ سب کچھ حکومت کی نا اہلی کی واضح تصویر ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے طلباء و طالبات کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی بحثیت طالبعلم شدید مذمت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ مکمل اظہار ہمدردی کرتے ہیں کہ حکومت ان کے جائز مطالبات پر فی الفور عمل کرے اور موجودہ وائس چانسلر کا فوری تبادلہ کرکے کسی علم دوست شخصیت کو تعینات کیا جائے تاکہ بلوچستان میں بالخصوص بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز میں تعلیمی مارشل لاء کے نفاذ کا خاتمہ ہو۔ وگرنہ پرامن احتجاج کرنا شہریوں کا جمہوری حق ہے جوکہ آپ جمہوری دستور میں ان سے نہیں چھین سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments